کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 306
میں ان کاوجود ہی نہیں تھا۔ (٢):......اصول حدیث ومتعلقاتہافن الرجال العلل والتاریخ وغیرہاتمام اصولوں کےثبوت (یعنی جوحدیث شریف کی صحت وسقم صحیح وضعیف موضوع وغیرہاکے متعلق وضع کئے گئےہیں وہ سارےبعدمیں محدثین کرام نے وضع کیے ہیں)قرآن وحدیث میں نہیں ہیں لیکن پوری امت ان اصولوں کو صحیح مانتی ہے اورحدیث کے متعلق ان کو مستند تصورکرتی ہے پھرکیوں نہیں ان کو بدعت قراردیا جاتا۔ خودعلامہ البانی صاحب ان اصولوں سے جابجاکام لیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اول توان پر لازم ہے کہ اپنے طریقہ کے مطابق ان کا ثبوت قرآن وسنت سے پیش کریں پھر ان کا استعمال کریں مگرہمارے ہاں تووہ بدعات ہرگزنہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قرب کے ذرائع ہیں کیونکہ ان ہی کی وجہ سے ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اوران کی اسوہ حسنہ تک علی وجہ البصیرہ پہنچ سکتے ہیں اوران ہی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ اورافتراءسےمحفوظ رہ سکتے ہیں۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتاہے۔وضاعین اورمبتدعین کا مکروفریب پاش پاش ہوجاتا ہے، بہرحال چونکہ ذرائع دین خالص تک پہنچنے کے وسائل ہیں لہٰذا ہمارے ہاں وہ دین ہیں نہ کہ بدعت کیونکہ دین تک پہنچانے والاذریعہ بھی دین ہے اگرچہ مخصوص علیہ نہ ہو۔ (٣):......علم النحووالصرف وغيرهامن العلوم: یہ علوم بھی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں حالانکہ یہ علوم بھی محدث (نئے)ہیں۔کتاب وسنت میں کہاں ہے کہ کتاب وسنت کے حصول کے لیے نحووصرف پڑھو؟پھران کودینی مدارس میں کیوں پڑھایاجاتا ہے ؟جب کہ ان ہی اداروں پرباقی صدقات وخیرات توچھوڑو زکوٰۃ بھی صرف کی جاتی ہے۔کیا یہ جائز ہوگا کہ ایک بدعت پر زکوٰۃ کا پیسہ خرچ کیاجائے۔ اگرکہا جائے کہ یہ علوم بھی کتاب وسنت کو سمجھنے کے ذرائع ہیں جن کے بغیر ان کو نہیں سمجھ سکتے توپھرذرائع کے مخصوص ہونے کا قول بالکل فضول ہے۔کیااللہ تعالیٰ یااس کے