کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 305
پڑھتاہےتوآخر وہ تسبیح کے بغیرکس طرح اندازہ مقررکرسکتا ہے۔ بہرحال تسبیح کو بدعت قراردینادلائل کے مطابق صحیح نہیں ہےہاں اگرکوئی اس کو فرض واجب یا سنت سمجھ کرکام کرتا ہے تویقیناًوہ مذموم کام کرتا ہے لیکن اگرکوئی صرف گننے کے لیےکام میں لاتا ہے تواس میں کون سی قباحت ہے۔ آگے اس سلسلہ میں وسائل وذرائع کی بدعت اورمباح ہونے کی بحث شروع کررہاہوں۔ یہاں پر ایک اصولی بحث کو چھیڑنانہایت ہی موزوں ومناسب ہوگا کہ آیا وسائل وذرائع اگرکسی ثابت شدہ شرعی امرکےلیے اختیارکئے جائیں توکیا ان کے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ بھی قرآن وحدیث میں نص واردہوں۔یا ان وسائل کا قرآن وحدیث میں نص ہوناضروری نہیں ہے ؟البتہ یہ ضروری ہے کہ اس وسیلہ یا ذریعہ کے بارے میں کتاب وسنت میں منع وارد ہو۔میرے خیال میں دوسراقول ہی صحیح ہے۔ یعنی شرعی امورکےاختیارکے لیے وسائل کا ثبوت کتاب وسنت میں نص واردہونا ضروری نہیں ہے ۔ذیل میں چند مثالیں رکھتا ہوں جوتمام امت محمدیہ میں رائج ہیں۔ حالانکہ ان کاثبوت بطورکتاب وسنت میں نہیں ہے، مقلد، غیر مقلد، اصحاب الحدیث،اصحاب الرائےنے ان کے متبادل وسائل عمل میں لائے ہیں مگرکوئی بھی ان کو بدعت قرارنہیں دیتا۔ مگرسبب صرف یہ ہے کہ یہ وسائل وذرائع زمانہ کے موافق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ (1):......کتاب وسنت کی تعلیم کا ثبوت ملتا ہے مگرموجودہ ہیئت میں مدارس کے قیام کاثبوت نہیں مل سکتا۔ حالانکہ مدارس کی جو حیثیت ہے وہ ہرکسی کو معلوم ہے یہی وجہ ہے مسلمان ان اداروں کو (فی سبیل اللہ)کی مدمیں شامل سمجھ کرخیرات ،صدقات،زکوۃ وغیرہ کے ساتھ مددکرتے رہتے ہیں پھرکیوں نہ ان کو بدعت قراردیاجائے؟یاتوان کا خصوصی ثبوت کتاب وسنت سے پیش کیاجاتاتوان کو کتاب وسنت تک پہنچنے کے ذرائع میں شامل کیا جائے کیوں کہ کتاب وسنت تک پہنچناتمام مسلمانوں پر لازم ہے کیوں کہ یہی ادارے دینی سرچشمہ تک پہنچنےکے ذرائع ہیں لہٰذا ان کوصحیح کہا جائے گانہ بدعت اگرچہ موجودہ ہیئت خیرالقرون تک زمانے