کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 304
اس کوبدعت کہنامیرے خیال میں صحیح نہیں ہے۔
(٧):۔۔۔۔علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس طرح (یعنی تسبیح کومستعمل کرنے سے)انگلیوں پر گننے والی سنت متروک ہوجاتی ہےحالانکہ اس طرح قطعاًنہیں ہےہم سارے ہروقت، ہرنمازکے بعد دوسرے اوقات میں انگلیوں پر بھی پڑھتے ہیں اوراس کے ساتھ تسبیح کوبھی استعما ل کرتے ہیں ۔باقی علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ اندازہ ایک سوتک ثابت ہےزیادہ نہیں اس لیےوہ انگلیوں پرآسانی سےپڑھاجاسکتا ہے۔اس لیے ایک سوکے اندازےتک محدودہونے کے ثبوت کا قائل ہونا بھی اگرچہ ایک سوکے اندازہ پر بولاجاتا ہے تویہ ایک ہاتھ سے قطعاً ادانہیں ہوسکتی بلکہ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سےمددلینی پڑے گی۔
حالانکہ علامہ صاحب نے اسی مضمون میں ایک صحیح حدیث بھی ابوداؤدسےذکرکی ہے جو کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سےمروی ہے جس میں ہے کہ
((رأيت رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بعض التسبيح بيمينه.)) [1]
پھراگر دوسرے ہاتھ سے مددلی جائے گی توعلامہ صاحب کے طریقہ کے مطابق دائیں ہاتھ والی سنت متروک ہوجائے گی یا اگرصرف دائیں ہاتھ پراکتفاکیاجاتا ہے توایک سوپڑھی نہیں جاسکے گی اس سوکوکس طرح پوراکریں ۔رہی یہ بات کہ علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ تسبیح کے عادی لوگ ساتھ باتیں بھی کرتے رہتے ہیں تویہ جس کی عادت ہے ہی جانے اس کا کام جانے پوری دنیا کو ایک ہی (لاٹھی)عصا سےمت ہانکوایسے بےخیالےلوگ توانگلیوں کو ہلاتے ہوئے بھی باتیں کرتے رہتے ہیں توکیا ایسے لوگوں کو دیکھ کرانگلیوں پرتسبیح پڑھنا بھی چھوڑدیں۔
احادیث میں درودشریف کو کثرت کے ساتھ پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت واردہے پھراگرکوئی آدمی دن یارات میں کوئی وقت مقررکرتا ہےمثلاً ایک ہزاریا اس سے زائدہ جتنی میسروقت کی تقاضا ہے یا وہ اپنی آسانی خاطراندازہ مقررکرتا ہے اورروزانہ مقررہ صلوٰۃ وسلام
[1] سنن ابي داود’كتاب الوتر،باب التسبيح بالحصي،رقم الحديث:٢ ١٥٠.