کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 303
ہوسکتا ہے۔یعنی یقیناً بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باجماعت ہی نماز پڑھتے ہوں گے توپھر جب پانچ وقت کی نماز باجماعت اداکرنے کے باوجودان سے رکوع کی ہیئت مخفی رہی حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد بھی وہ اس تطبیق پر عامل رہا۔توکیا ان سےوہ معاملہ جوصحابیات رضی اللہ عنہا یا کسی محرمات مطہرات سےپیش آیا ہواوروہ اس وقت (برعکس نمازکے)وہاں حاضر بھی نہ ہوکیایہ معاملہ نماز سے بھی اہم ہے جوان سے مخفی ان شاءاللہ نہ رہتا،يالعجب وضية الادب۔ (٦):۔۔۔۔اسی سلسلہ میں علامہ صاحب آخر میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ اذکاروغیرہ کااندازہ مقررکرنابھی بدعات میں سے ہے حالانکہ حضرت سعدبن ابی وقاص کی صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے یہ صحابیہ رضی اللہ عنہاکنکریوں وغیرہ پرکچھ اذکارپڑھ رہی تھی ظاہرہے کہ یہ خودایک اندازہ مقررکیاہوگا،پھرکیا آپ نے ان پراذکار نہیں کیااوران پرپڑھنے سے منع کیوں نہیں فرمایا۔ علاوہ ازیں بالکل صحیح روایت میں وارد ہے صحابی رسول جس نے ڈسے ہوئے آدمی پرسورت فاتحہ کا دم کیا تھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پربتایاکہ میں نے سات بارسورت فاتحہ پڑھ کردم کیا جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آپ کو کس نے کہا کہ سورت فاتحہ رقیہ ہے تواس نے کہا کہ (شي القي في روحي)جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکارنہیں کیا۔ اس سے دوباتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اگرانسان کے دل میں یہ بات آجائے کہ کس طرح فلاں سورت میرے دردمرض کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے توبلاشبہ پڑھ سکتا ہے اوردل میں آیا ہوااندازہ بھی قبول کرسکتا ہے کیونکہ آپ نے جس طرح فاتحہ کو رقیہ سمجھ کردم کرنےوالے صحابی رضی اللہ عنہ کے فعل کو بحال رکھا اسی طرح ان کے درست اندازے کو بھی برقراررکھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت(غیرنفی)بھی حجت شرعیہ ہے بہرکیف اس طرح کے دوسرے ثبوت تتبع کرنے سے مل جائیں گے جن سے معلوم ہوگا کہ اپنی آسانی یا مصروفیت یاکسی بھی سبب اندازاکیا ہوا وردیا ذکریا کسی قرآنی سورت کا اندازہ قدرکرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔ لہٰذا