کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 302
کریں گےجب مخرج ایک ہویہاں مخرج ایک نہیں ہے۔ لہٰذا دونوں کو ایک بناکرپھر صحیح روایت کی سند لے کریہ کہنا کہ صاحبۃ القصہ جویریہ ہیں نہ کہ صفیہ یہ توایک نئے اصول کی ایجادہوئی جس کا مسلم اصول الحدیث میں کوئی پتہ نہیں ہے ۔پھر فرماتے ہیں کہ: ((الثاني انه ذكرالحصي في القصة منكر.))
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آخرکیوں علامہ صاحب جیسا محقق اتنی بڑی تکلیف وتعسیف بلکہ تعصب کا ارتکاب کررہے ہیں جب کہ دونوں حدیثیں ایک بھی نہیں ہیں دونوں کے مخرج الگ الگ ہیں توپھر اگر ایک حدیث میں کسی بات کا ذکر نہیں ہے توپھر اس سے یہ کس طرح لازم آتا ہے کہ جس بات یا امر کا ذکر دوسری حدیث میں ہے وہ بھی ذکر ہے ؟
علاوہ ازیں حصی کے ذکر کے لیے صرف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت نہیں ہے بلکہ دوسری روایت حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ والی بھی ہے جوامام ترمذی کے طرق سے حسن لغیرہ اورحاکم کی روایت سے صحیح ہے جس کا بیان اوپر گزرچکا ہے ۔بہرحال ان دونوں حدیثوں میں سے(جن میں سے ایک صحیح ہے)میں حصی کا موجو دہونا معلوم ہوا لہٰذا اگردوسری روایت میں جودوسری صحابیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں اس کا ذکر نہیں ہے تواس کاان حدیثوں پر کیسے اثر ہوگا؟
(٥):۔۔۔۔آگے علامہ فرماتے ہیں کہ:
((ولوكان ذالك ممااقره النبي صلي اللّٰه عليه وسلم.))
خفی علی ابن مسعودان شاءاللہ یہ بھی عجیب العجب ہے ۔افسوس! علامہ صاحب کے ذہن سے وہ ساری حقیقتیں غائب ہوچکی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےبھی جلالت قدرکےباوجود کتنی ہی باتیں مخفی رہیں اوران سے نسیان ہوگیا۔دیکھیے رکوع میں تطبیق وغیرہ یہ حدیث صحاح وغیرہ میں موجود ہے۔جب ا بن مسعود رضی اللہ عنہ سے رکوع کی ہیئت جیسامسئلہ مخفی رہ سکتا ہے ۔حالانکہ رکوع کا تعلق نماز سے ہے جو کم ازکم پانچ دفعہ تودن و رات میں ہر مسلمان اداکرتا ہے ۔کیا ا بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیشہ باجماعت نماز ادانہیں کرتے تھے،اس کا جواب ایک ہی