کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 301
فرماتے ہیں کہ (وثق)باقی اس کوتضعیف کی طرف اشارہ کہنا یہ علامہ صاحب کا بےجاتشددہےاورحافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ کے متعلق بھی علامہ صاحب کا لکھنا کہ اس کی تقریب میں اس کے(لین الحدیث )ہونے کااشارہ کیا گیا ہےیہ قطعاًصحیح نہیں ہے۔حافظ صاحب نے ان کےمتعلق مطلقا(لین الحدیث )نہیں لکھا ہےتقریب موجود ہےملاحظہ کریں۔
((كنانه موليٰ صفيه مقبول ضعفه الازدي بلاحجة.)) [1]
اس سے ظاہرہواکہ اس راوی کی صرف ازدی نے بلاحجت تضعیف کی ہےورنہ واقعتاً وہ مقبول ہے اورلفظ مقبول کے متعلق حافظ صاحب نے مقدمہ میں وضاحت کی ہے کہ ایساراوی جس کے متعلق مقبول کہوں اوراس کی کہیں پرمطابقت نہ ہوتووہ لین الحدیث ہے۔لیکن یہاں پر تواس کی پہلی روایت کے ساتھ مطابقت بھی ہے لہٰذا وہ صحیح معنی میں مقبول ہے نہ کہ لین الحدیث۔
بہرحال علامہ صاحب کا ان کے متعلق یہ کہنا کہ حافظ صاحب نے اس کے لین الحدیث ہونے پر اشارہ کیا ہے وہ اس وقت صحیح ہوتا جب اس کی مطابعت نہ ہوتی لیکن جب مطابعت موجود ہے تو وہ مقبول ہے اور حافظ ذہبی نے بھی اس کے متعلق (وثقہ)کہا ہے، اس لیے صرف ابن حبان کی توثیق نہیں رہی بلکہ حافظ ذہبی نے بھی اس کی تائید کی ہے، لہٰذا وہ مجہول الحال نہیں رہا۔
(٢)۔۔۔۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کی صحیح روایت کے لکھنے کےبعد علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ:
((قول هذاالحديث الصحيح علي امرين الاول ان صاحبة القصة هي جويرية لاصفية‘كمافي الحديث الثاني.))
یہ بھی نہایت ہی عجیب بات ہے کیوں کہ اس کی سند دوسری اوراس کی سند دوسری یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےہےاوروہ کنانہ عن صفیۃ ہے اوردونوں کو ایک بناکریہ کہنا کہ صاحب القصۃ جویریہ رضی اللہ عنہا ہے نہ کہ صفیۃ یہ توسینہ زوری ہوئی۔یہ بات محدثین کرام اس وقت قبول
[1] تقريب التهذيب:صفحہ٤٣١طبع نشرالسنة لاهور.