کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 300
خصوصاً اس صورت میں کہ امام محدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احتجاج کیا ہے ۔ لہٰذا یہ راوی(جاوزالقنطره)کےمصداق ہے۔ علاوہ ازیں علامہ صاحب کی ترمذی کی تحسین پر اعتراض بھی منظورکیا ہے اس لیے کہ خزیمہ کے متعلق حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ نے(لایعرف)لکھا ہے لہٰذا یہ مجہول الحال ہوانہ کہ مجہول ہے اس صورت میں جوروایت حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاسےہے جس کی سند میں ہاشم بن سعید ہے اس سے قوت حاصل کرکے حسن لغیرہ تک پہنچاجاسکتا ہے۔کیونکہ ہاشم کے متعلق حافظ صاحب نے (ضعیف )لکھا ہے یہ لفظ جرح شدیدمیں سے نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ اس روایت میں تقویت کا باعث بن سکتا ہے، لہٰذا ترمذی اگرچہ متساہلین میں لکھے جاتے ہیں لیکن یہاں پر ان کی تحسین ہے حسن لغیرہ حدیث کو اگرچہ کچھ محدثین مطلق حجت سمجھتے ہیں۔ (بشرطیکہ وہ بھی صحیح یا حسن لذاتہ کی مخالف نہ ہو) لیکن مجھے ان محدثین کی بات ٹھیک نظرآتی ہےجوکہتے ہیں کہ یہ حسن لغیرہ عقائد یااحکام مثلاً حلال وحرام فرائض وواجبات کے باب سے نہ ہوتووہ بیشک (صحیح سےمخالف نہ ہونے کی صورت میں )معتبرہے۔ (كماذكره’الحافظ في الكنت) اوریہ حدیث جوحصی وغیرہ سے گننے کے بارے میں ہے وہ بھی فرائض وواجبات یاحلال وحرام یاعقائد کے باب سے نہیں ہے بلکہ یہ محض کسی ثابت شدہ بات کے حصول کا وسیلہ وذریعہ ہے ایسی باتوں کے اثبات کے لیے حسن لغیرہ بالکل کافی ہے ورنہ دوسری صورت میں حسن لغیرہ روایت کو اصول حدیث سےبالکل خارج کردیناچاہئے۔بہرحال یہ حدیث حسن لغیرہ ہے لہٰذا امام ترمذی کی تحسین محل نہیں بلکہ علامہ صاحب کا مئواخذہ بھی محل نظر ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکی روایت نقل کرتے ہوئے اس پرکلام کرتے ہوئے علامہ صاحب نے ایک توہاشم بن سعید پر کلام کیا ہے جس کے متعلق پہلے عرض کرچکے ہیں دوسراراوی کنانہ ہے جس کے متعلق فرماتے ہیں کہ’’مجهول الحال يوثق غيرابن حبان‘‘حالانکہ اس طرح نہیں ہے بلکہ نیچے خودعلامہ صاحب نوٹ میں لکھتے ہیں کہ حافظ ذہبی اس کے متعلق