کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 280
اگراہل حدیث حضرات بھی اپنے مسائل کو ثابت کرنے کے لیے یہ طرز عمل اختیار کریں گے اوراس قسم کے بےسند دلیل اورروایتیں پیش کریں گے توپھر بیچارے مقلدین کے لیےبجاہے۔حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنی جگہوں پر حنفی حضرات کچھ احادیث پیش کرتے ہیں تواہل حدیث علماء ان کو کہتے ہیں کہ ان احادیث کی سند نہیں ہے یا توسند پیش کرویاپھر دلیل معرض احتجاج میں پیش نہ کرواوریہ بات واقعی کے اعتبارسے بھی صحیح ہے ۔پر اس مسئلے میں وہ اپنے اس مسلک اورصحیح اصول کو کیوں بھول جاتے ہیں ۔کیا یہ نمونہ’’خودرافضیحت دیگرآں رانصیحت ‘‘کے مصداق نہیں ہےمجھے تویہ ٹکڑاکسی بھی ایسی حدیث کی کتاب سے نہیں ملاجس میں اس کی سند بھی شامل ہواورظاہر ہے کہ اسنادکے سواروایت بیکارہےورنہ اگراسنادکی پابندی نہ ہوتی توہر کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو چاہتا وہ نسبت کرتا اوردین کی صورت کیاسےکیا ہوجاتی۔ بہرحال جو بھی اس قطعہ سے استدلال کرتا ہے اول تو اس کو اس قطعہ پر مشتمل حدیث کوکسی مستند کتاب سے یااسنادنقل کرنی چاہئے، پھر استدلال میدان میں آکرپیش کرےپھردیکھیں کہ اس کی سند قابل حجت ہے یا نہیں لیکن اگراس کی سند پیش نہ کرسکے توپھر ان سےاستدلال کرنا اپنی جہالت ظاہر کرنا ہے یا تجاہل عارفانہ کرکے محض فتویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش اوریہ دونوں باتیں مذموم ہیں اورکوئی بھی ان کو اچھایا صحیح نہیں کہے گا۔ دوسری بات یہ کہ یہ ٹکڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نے سوال کے جواب میں پیش کیا سوال یہ تھا۔(جواس حدیث میں مذکورہے)کہ ((انت احب هذاالنفس.)) ’’کیاتونہیں تھاجواس طرح سانس لے رہا تھا۔‘‘ یعنی صحابی نے جلدی کی تھی اس لیے سانس لے رہا تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سانس لینے کی آواز سنی اورپوچھاکہ توہی سانس لے رہا تھا)مطلب کہ صحابی سے دوغلطیاں صادرہوئی تھیں ایک تونماز کی طرف چلنے میں جلدی کررہا تھا حالانکہ اس کو حکم تھا کہ نماز کی