کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 279
موہوم احتمالات کی بناء پر ساقط کردی جائیں گی؟ اس کے علاوہ اس حدیث میں یہ بیان ہےکہ وہ صحابی صف سے باہر رکوع کرتا ہوا آیاپھرآکرصف میں شامل ہواکیا یہ حضرات اس فعل کوجائز کریں گے یعنی دوسراکوئی اس طرح کرے کہ امام رکوع میں جائے پھر مسبوق مسجد میں داخل ہوتے ہی دورسےرکوع کرتا ہواآئے، اورصف میں شامل ہوجائے کیا اس طرح جائز کہیں گے؟ بالکل نہیں کیونکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کردیاکہ ایسا نہیں کرنا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ’’زادك اللّٰه حرصاولاتعد‘‘اللہ آپ کے حرص کو (دینی کاموں میں)بڑھائے آئندہ ایسے نہ کرنا اب جب ایک بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا (یعنی اس نےکیسے پھر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرنے سے آئندہ کے لیے روک دیا توپھر روکےہوئے کام کو کیسے جائز کیا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ اس صحابی کی روایت میں اس طرح پھرآتاہےکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےسوال کرنے پر اس نے جواب دیاکہ: ((نعم جعلني اللّٰه فداك خشيت اماتفوتين ركعة معك فاسرعت المشي.)) ’’یعنی ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے مجھے خوف ہوا کہ مجھ سے رکعت فوت نہ ہوجائے اس لیے چلنے میں جلدی کی۔‘‘ یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس صحابی کا مطلب تھا کہ اگر میں رکوع میں شامل ہوگیا تورکعت فوت نہیں ہوگی، اس لیے چلنے میں جلدی کا کہا جائے گا کہ یہ صحابی رکوع میں شامل ہونےسے رکعت ملنے کا قائل تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ردنہ کیا ۔یہ ہے ان کی دلیل کا خلاصہ۔ لیکن اول تو سوچنے کی یہ بات ہے کہ حدیث کا یہ ٹکڑا جواپنے دلیل میں پیش کیا جاتاہے،ان کی سند کہاں ہےیہ عجیب انصاف ہے کہ ایسے زبردست مسئلے میں جس میں دوفرض گرتے ہیں اس بے سندروایتیں لاکرمعرض استدلال میں پیش کرتے ہیں کیا یہ افسوسناک حقیقت نہیں ہے؟