کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 278
یہ حدیث اگرچہ صحیح ہے اوربخاری میں موجود ہے لیکن اس میں ان کے دعوی کا ثبوت ملنامشکل ہے۔کیونکہ جس طرح اس حدیث میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو اس رکعت کے دہرانے کا حکم دیا اس طرح اس حدیث میں یہ بھی بیان نہیں ہے کہ اس صحابی نے اس کو رکعت کو نہیں دہریامطلب کہ دونوں ہیں توجس طرح یہ احتمال ہوسکتاہے کہ اس نے رکعت نہ پڑھی ہو۔یہ بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ اس نے دہرائی ہواس لیے کہ صحابہ کو یہ بات معلوم تھی کہ قیام فاتحہ کا نماز میں پڑھنا فرض ہے،چونکہ یہ بات پہلے ہی متحقق تھی اس لیے راوی نے یہ ذکر ہی نہیں کیاکیونکہ دستورہوتا ہے کہ جوبات پہلے ہی معلوم ہوتی اس کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی البتہ جو بات نئی پیش آتی ہے اس کو ذکر کیا جاتا ہے لہٰذا یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نےیہ رکعت دہراکرپڑھی ہوپھر چونکہ یہ بات(یعنی قیام اورسورۃ فاتحہ کے سبب رکعت کا دہرانا)توپہلے ہی معلوم تھا اس لیے اوپر والے راوی نے اس بات کو ذکر ہی نہ کیا البتہ یہ بات جونئی تھی ۔یعنی حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کرنا پھر رکوع ہی کی حالت میں چلتے ہوئے صف میں شامل ہونا اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح کرنے سے منع کرنا ذکر کیا جب اس رکعت کے متعلق یہ دونوں احتمال ہوسکتے ہیں۔ (کیونکہ ذکر کسی بات کا نہیں اورعدم ذکر عدم وجود کو لازم نہیں ہے )توپھر یہ بتایاجائےکہ یہ حضرات یہ یقین سے کیسے کہتے ہیں کہ اس صحابی نے اس رکعت کو نہیں دہرایا بلکہ صرف کسی بھی مزید بات کا ذکر نہیں پھر کیا یہ عالم الغیب ہیں جو ان کو معلوم ہوگیا کہ واقعی اس صحابی نے رکعت نہیں دہرائی اوراگر یہ عالم الغیب نہیں ہیں اوریقینا ًنہیں ہیں توپھر یہ قطعی حکم لگانا کہ اس صحابی نے رکعت نہیں دہرائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دہرانے کا حکم بھی نہ دیا اوراس بنائے ہوئے مفروضے پر پھر یہ متفرع کرنا کہ بس اس سے ثابت ہوا کہ رکوع سے رکعت ہوگئی یہ کتنی ہی عجیب بات ہے ۔اصل بنیاد ہی ثابت نہیں توپھر جوان پر تفریع کی جاتی ہے وہ کہاں سے ثابت ہوگی۔کیا کتاب وسنت سے جو باتیں فرض ہوتی ہیں وہ صرف کچھ