کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 277
شدہ ہو ان کو محض احتمالات سے گرایانہیں جاسکتا اوریہ بات بھی اہل علم سے مخفی نہ ہوگی کہ((اذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال.))یعنی احتمال آگیاتودلیل لیناباطل ہوجائے گا۔ مطلب کہ جب نماز میں قیام (کھڑاہونا)اورالحمدکاپڑھنا(اہلحدیث کے پاس)فرض ہےاورنمازکارکن ہے اوریہ بات ایک طےشدہ اورفیصل حقیقت ہے توان فرائض کو اس حدیث سےکیسے گرایاجاتا ہے؟اورگرانابھی ایسی حدیث سے جس کی سند بھی صحیح نہیں اورمتن میں ایک دوسرااحتمال ہے(یعنی حقیقی معنی پر حمل)جس سبب کے بناءپریہ حدیث اپنےمفروضے اوردعوی کی ہوئی معنی میں بھی نص نہ رہی(بلکہ خودحقیقی معنی والااحتمال اوربھی زیادہ قوی ہے جیسا کہ پہلے عرض کرچکاہوں۔)توپھراس محتمل عبارت سے ایک بھی نہیں دوفرضوں کو گرایاجاتا ہےیہ بے انصافی ہے ایک فرض اوررکن کو ساقط کرنے کے لیے دلیل بھی ایسی ہی مضبوط اورنصا ًہونہ کہ ایک محتمل عبارت کا حامل اوروہ بھی ایسے احتمال کا حامل جو کافی بعیداحتمال ہے۔(کیونکہ مجازی معنی کا حامل ہے)اوراس طرح کا طرز عمل قواعدعلمیہ کے خلاف ہے اگراس طرح عام راستے نکالیں گے توپھرہرکوئی کسی نہ کسی محتمل عبارت سےدلیل لے کراللہ کے فرائض سے جان چھڑالے گا۔پھرفرائض کی کیا اہمیت رہی بہرحال حدیث سند کےاعتبارسے توقابل حجت نہیں ہے مگرمتن بھی مزعوعہ پرقطعی دلیل یانص نہیں ہے۔ تیسری دليل:......حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی جاتی ہے اس حدیث کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے تو حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ آئے توآتےہی صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کیا پھر آگے بڑھے(رکوع کی حالت میں ہی)اورجاکرصف میں شامل ہوئے سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ یہ کس نے کیا ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے رسول میں نے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کے حرص کو(دینی کاموں میں)بڑھائے پھرایسے نہ کرنا۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ صحابی رکوع میں شامل ہواپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس رکعات لوٹانے کا حکم نہ دیا کہا جائےگا وہ رکعت ہوگئی۔