کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 276
یعنی جو نماز میں امام کی پیٹھ سیدھی کرنے سے پہلے رکوع میں پہنچ گیا تووہ نماز میں پہنچ گیایعنی رکعت ہوگئی۔
اس حدیث کی سند میں ایک راوی یحیی بن حمیدہے جس کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’لايتابع في حديثه‘‘یعنی یہ راوی ایسی احادیث لاتا ہے جن کی متابعت نہیں ہوتی اورخودامام دارقطنی نے بھی اس راوی کی تضعیف کی ہے اس طرح اس کی سند میں دوسراراوی قرۃ بن عبدالرحمٰن ہے اس کے بارے میں جوزجانی فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے سنا کہ یہ راوی’’منکرالحدیث جدا‘‘یعنی سخت منکر الحدیث ہےاوریحییٰ بن معین نےفرمایا کہ ’’ضعیف الحدیث ‘‘یعنی یہ راوی حدیث میں ضعیف ہے۔اورابوحاتم فرماتے ہیں کہ’’ليس بالقوي‘‘یعنی یہ راوی قوی نہیں ہے۔(كما في التعليق المغني علي الدارقطني)جب اس حدیث کی سند میں دوراوی ضعیف ہیں تویہ حدیث حجت لینے کےقابل کیسے ہوگی۔
(متن الحدیث الاول)اب پھرپہلی حدیث کے متن پر غورکریں کہ اس میں الفاظ یہ ہیں کہ جورکعت میں پہنچاوہ نماز میں پہنچ گیا اوررکعت کے لفظ کی حقیقی معنی پوری رکعت ہےصرف رکوع ان کی مجازی معنی ہے اورمجازی معنی پر عمل تب ہی کیا جاسکتا ہے جب حقیقی معنی وہاں نہ بن سکے اورکوئی قرینہ ہو جو حقیقی معنی کو بدلنے متقاضی ہو۔
مگریہاں ایسا نہیں کیونکہ یہاں حقیقی معنی بھی درست ہوسکتاہے،پھر اس کی مجازی معنی کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے یعنی اس قطعہ کا مطلب یہ ہوا کہ باجماعت نماز کا مکمل ثواب وہ حاصل کرسکتا ہے جو کم ازکم پوری ایک رکعت میں پہنچ جائے جیسا کہ دوسری احادیث اس طرح کی آتی ہیں جن میں صراحتاً رکعت کا ہی بیان ہے یعنی پوری رکعت ملنے سے نماز مل گئی باقی سجدہ وغیرہ کے ملنے سے رکعت نہیں ہوگی اورنہ ہی پوری نماز باجماعت کو پہنچ سکے گا۔
اب بتایاجائے کہ آخر اس معنی میں کون سی خرابی ہے جو خوامخواہ لفظ کو اپنی حقیقی معنی سےنکال کرمجازی معنی پر محمول کیا جاتا ہے ؟اوریہ حقیقت ہے کہ جوبات یا امریا حقیقت طے