کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 275
((لم يتبين سماعه عن زيد و لا من ابن المقبري ولاتقوم به الحجة.))
یعنی اس راوی’’یحییٰ کا زید اورابن مقبری(سعید بن ابی السعید مقبری)سےسماع بھی واضح نہیں ہے۔(اس لیے کہ یحییٰ حدثنا کے الفاظ نہیں کہتا بلکہ عن کا لفظ استعمال کرتا ہے جوسماع کے لیے مضبوط لفظ نہیں ہے بلکہ محتمل ہے)اوراس راوی سے دلیل اورحجت نہیں لی جاسکتی،یعنی یہ راوی حجت لینے کے قابل نہیں ہے۔
اورامام بیہقی کتاب المعرفۃ میں فرماتے ہیں کہ’’تفردبه يحيي بن ابي سليمان هذاوليس بالقوي‘‘یعنی یہ الفاظ اس حدیث میں صرف یحییٰ نے نقل کیے ہیں اوروہ قوی راوی نہیں ہے اس طرح تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ اورمیزان الاعتدال میں حافظ ذہبی نے نقل کیا ہے کہ حافظ ابوحاتم فرماتے ہیں کہ ’’يكتب حديثه وليس بالقوي‘‘یعنی اس راوی(یحییٰ)کی روایتیں لکھی توجاسکتی ہیں مگریہ قوی راوی نہیں ہے۔
مطلب کہ یہ راوی ضعیف ہے اس طرح حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ تقریب التہذیب میں فرماتے ہیں کہ’’لین الحدیث‘‘یعنی حدیث کا یہ راوی کمزورہے۔ البتہ ابن حبان اورحاکم اس کی توثیق کرتے ہیں مگراول یہ کہ ابن حبان اورحاکم کا تساہل مشہورہےمگران کے ہوتے بھی جب ان کی توثیق کے مقابلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے منکر الحدیث کے الفاظ موجود ہیں جس طرح اصول حدیث کے ماہرکومعلوم ہے کہ یہ الفاظ جرح مفسرہیں اورجرح شدید ہیں اس لیے اس جگہ جرح کو تعدیل پر مقدم کیا جائے گا’’كماتقررفي اصول الحديث‘‘ لہٰذا یہ راوی ضعیف ہواجب اس حدیث کی سند میں ایک راوی ضعیف ہے تویہ حدیث صحیح کیسےہوگی جب حدیث ہی صحیح نہ رہی تواس سے اس مسئلے پر دلیل کیسے لی جائے گی۔
دوسری دليل:......دارقطنی کی سنن میں ان الفاظ سے مرفوع حدیث آئی ہے کہ : ((من ادرك ركعة من الصلاة فقدادركهاقبل ان يقيم الامام صلبه.))