کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 269
حين يقوم ويكبرحين يركع ثم يقول سمع اللّٰه لمن حمده حين فرفع صلبه من الركعة ثم يقول وهوقائم بنالك الحمد ثم يكبرحين يهوي ساجدا ثم يكبر حين يرفع رأسه ثم يفعل ذلك في الصلٰوة كلها حتي يقضيهاويكبرحين يقوم من المثني بعدالجلوس ثم يقول ابوهريرة رضي اللّٰه عنه انی لا شبهكم صلٰوة برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.))
اوراس روایت کی اسنادصحیح ہے لہٰذا اس احتمال قوی کی موجودگی میں(خصوصاً جب خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ا س کی مئویدبھی ہو) توبلاوجہ اس پر اصرارکرنا کہ ان کےان الفاظ((انی لا شبهكم صلٰوة برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.))سے مرادمشابہت من کل الوجوہ ہے ۔محض بے جاضدومسلکی حمیت نہیں تواورکیا ہے۔
بہرصورت ان احتمالات کے قطع نظریہ روایت اشارۃ وایماءمرفوع ہےاوراس لیےبسملہ کا جہربھی اشارہ وکنایہ یاایماءپرمبنی ہے۔ لہٰذا یہ کتنا ظلم عظیم ہے کہ ان سب احادیث مبارکہ جوسب کی سب صحیح بھی ہیں۔حقیقتاً مرفوع بھی اورعدم جہربسملہ پرنص صریح ہیں ان پر ایسی روایات کو مقدم کیاجائے جونہ توصراحتاً مرفوع ہے۔ اورنہ ہی مسئلہ زیربحث پرصراحتاًدلالت کرتی ہےیہ توکسی مکتب فکروکسی مسلک کااصول نہیں ہے کہ نص صریح کو چھوڑکرایک محتمل واشارہ یاایماءسےمسئلہ بتانے والی روایت کو مقدم کیاجائے۔ اگراس قسم کی جرأت مقلدین حضرات کرتے ہیں تواہل حدیث حضرات ان پر تنقیدات کی بارش کردیتے ہیں۔لیکن اگرخود اپنے مسلک کا پاس ولحاظ ہوتوان سب مسلمہ اصول کو بالائے طاق رکھ کروہی کچھ کیا جارہا ہے جس پر انہیں اغیارپراعتراض ہے۔
((فياللعجب خودرافضيحت ديگران رانصيحت فاناللّٰه وانااليه راجعون.))
(٢):......حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک اثربھی پیش کیا جاتا ہے جس میں ہے کہ ایک مرتبہ