کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 268
کایہ کہنا کہ: ((انی لا شبهكم صلوٰة برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.)) سے مرادنمازمیں انتقالات کی تکبیریں ہوں کیوں کہ اسی عہد میں بعض ائمہ نے نماز میں رفع وخفض میں تکبیرات کہنی چھوڑدی تھیں۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سجدہ میں جاتے تب بھی تکبیرکہتے اوراس سے سراٹھاتےتو بھی تکبیرکہتے اورجب دورکعتوں سے اٹھتے تب بھی تکبیرکہتے جب نمازپوری کی توحضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میراہاتھ پکڑااورفرمایاکہ اس نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے)مجھےحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیادلادی۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ نمازمیں ہرخفض ورفع میں تکبیرات کہتے تھے۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےملااوراس کے متعلق تعجب سے دریافت کیاتوحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((اوليس تلك صلٰوة النبي صلي اللّٰه عليه وسلم لاام لك.)) اگراس عہد کے لوگوں نے ان انتقالات میں تکبیریں کہنی چھوڑدی ہوتیں توعکرمہ تعجب سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیوں دریافت کرتے۔ جوچیز عام ہوتی ہے اس کے متعلق پوچھنا توکجااس پر تعجب بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی بات کی طرف ((انی لا شبهكم صلوة برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.))میں اشارہ فرمایاہواوراس احتمال کی یہ روایت بھی تقویت دیتی ہے جوامام عبدالرزاق اپنے مصنف میں لائے ہیں: ((قال عبدالرزاق عن ابن جريج قال اخبرناابن شهاب عن ابي بكربن عبدالرحمن ابن الحارث بن هشام انه سمع اباهريرة رضي اللّٰه عنه يقول كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اذاقام الي الصلٰوة يكبر