کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 267
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ((قال(اي نعيم المجمر)صليت وراءابي هريرة رضي اللّٰه عنه فقرأ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ثم قرأ بام القرآن حتي بلغ غَيْرِ‌ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ فقال آمين! فقال الناس آمين و يقول كلماسجداللّٰه اكبرفاذاقام من الجلوس في الاثنتين قال اللّٰه اكبرواذاسلم قال والذي نفسي بيده اني لأشبهكم صلوٰة برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.)) اس حدیث کی سندبلاشبہ صحیح ہے لیکن اس کے سیاق میں اتنے احتمالات ہیں کہ اس کو زیربحث مسئلہ پرہرگز ہرگزنص نہیں لیکن ان تفصیلات کی جگہ تحصیل المعلاۃ ہے نہ کہ یہ مختصر کتابچہ پھرروایت میں ہے کہ’’ثم قرأ بام القرآن‘‘اوریہ وضاحتا بتارہا ہے کہ راوی نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کوفاتحہ کی آیت قرارنہیں دیاورنہ اس طرح فرماتے کہ: ((ثم قرأ بام القرآن فاستفتح ببِسْمِ اللّٰهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ.)) غورفرمائیے اوریہ بات آپ کے مسلک کے خلاف ہے کیونکہ آپ بسملہ کو ام القرآن کی جزیاآیت ہی قراردےرہےہیں۔پھریہ روایت موقوف ہے مرفوع نہیں آپ اسےمرفوع محض اس لیے بنارہے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ: ((اني لا شبهكم صلوٰة برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم.)) لیکن اولاً تویہ الفاظ ضروری نہیں کہ نماز کے ہر جز کے متعلق فرمایاہوبلکہ اکثر کے متعلق اوراگریہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس سے ہر جزمیں مشابہت مراد ہے تب بھی اسے اس روایت کا رفع بطوراشارہ کنایہ اورایماء کے باب سے ہے ۔اورہم نے جو روایات ذکر کی ہیں وہ سب کی سب صریح طور پر مرفوع بھی ہیں اورعدم جہرپرنص صریح ہیں اوریہ شرعاً،عرفاً،اصولاًبالکل غلط ہے کہ ایک بات جو اشارۃً وکنایۃً معلوم ہواس کو اس بات پر مقدم کیا جائےجونصاًوصراحتاًصحیح سندکے ساتھ ثابت ہوچکی ہے پھر یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ