کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 262
بھی پیداہوتا ہے کہ اس طرح تواللہ اوربندے کے درمیان آیات نصفاًنصفاًنہیں بنتیں حالانکہ حدیث کا متن اس پر گواہ عدل ہے کہ یہ تنصیف آیات کے لحاظ سے ہے۔
لہٰذا ان حضرات کے مؤقف کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے لیے توتین آیتیں ہوئیں
﴿١﴾ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٢﴾ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِبلکہ ان حضرات کے مسلک کے مطابق بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کوملاکرچارآیتیں بنتی ہیں اورایک آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُمشترک ہوئی اوربندہ کے لیے صرف دوآیتیں رہ گئیں۔تویہ نصف کیسے ہواپھراس کے ساتھ یہ سوال بھی بجاطورپرسامنے آتاہے کہ جب بسم اللہ فاتحہ کی آیت ہی تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کو آخرچھوڑاکیوں؟کیااس سے آپ کی ذات پر الزام نہیں آتا؟
پھرجب خود اللہ کے رسول علیہ السلام بھی بسملہ کو فاتحہ کی آیت شمارنہیں کیا تو آپ کون ہوتے ہیں اس میں اس کا اضافہ کرنے والے؟
شاید کوئی علم حدیث سےناواقف یہ کہے کہ سنن کبریٰ دارقطنی وغیرہ میں اس حدیث میں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِکاذکر ہے تواس کے بارہ میں یہ گزارش ہے کہ اس کی سند میں ابن سمعان متروک ومتہم راوی ہے لہٰذا یہ روایت قطعاًمقبول نہیں خودامام ددارقطنی وغیرہ نے یہ تصریح فرمادی ہے کہ یہ زیادتی بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِکی ابن سمعان کی کارستانی ہے اوروہ متروک ومہتم ہے اس کےسوائے اورسب روایات صحیحہ میں اس زیادتی کا ذکر نہیں ہے۔
بہرحال جب صحیح حدیث کے بموجب بسملہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے توفاتحہ کو جہراًپڑھتے ہوئے بسملہ کا جہراًپڑھنا بھی ضروری نہیں رہایہ بسملہ استعاذہ وغیرہ کی طرح ہے جو سراپڑھےجاتے ہیں کیونکہ یہ فاتحہ کی آیات نہیں ہیں۔اس میں شک نہیں کہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمقرآن کریم کی آیت مستقلہ ضروراوریقینی وحتمی ہے لیکن کسی سورت کی بھی جز نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسورتوں میں فصل کے لیے اورسورت کی ابتدامیں تیمن وتبرک کے لیےنازل ہوئی تھی۔صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ایک سورۃ جس میں تیس ٣۰آیتیں ہیں یعنی سورت