کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 256
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِجہراًنہیں پڑھاکرتے تھے، اس لیے حضرت انس خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرأۃ کی ابتداء میںبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِسن نہ سکے۔ بعض افاضل عصریہ نے اس طرح گل افشانی کی ہے کہ عدم سماع سے عدم جہرلازم نہیں آتا ہوسکتا ہے کہ آدمی امام سے دورہواوراس کی آواز سن نہ سکے لہٰذا اس صحیح حدیث سے بسملہ کا عدم جہراً ثابت نہیں ہوتا۔
لیکن یہ احتمال درست نہیں۔ اس کے درست ہونے کے وجوہ ایسی واضح ہیں کہ ہرمنصف مزاج اہل علم تھوڑے سے غوروفکرسے ان کے بطلان کی وجوہ کو پاسکتا ہے۔
یہ درست اس لیے نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدرصحابی جس نے آپ کی خدمت دس سال کی۔سفرو حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ،یعنی یہ صحابی خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طویل صحبت کے باوصف یہ بھی نہ سن سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمجہراً پڑھتے تھے نہیں یا وہ ہمیشہ دانستہ بالکل دیرسےنمازکے لیے آتے اوربالکل آخری صفوں میں کھڑے ہوتے جس کی وجہ سے وہ بسم اللہ سن نہ سکے اورلطف یہ کہ الحمد للہ رب العالمین توسن لیابِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِنہ سن سکا۔ فياللعجب وضيعة الادب‘‘
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدخلفاء راشدین ثلاثہ کے ساتھ بھی ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے اوراس طویل مدت میں بھی وہ ان خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سےبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمنہیں سن سکاصرف الحمد للہ رب العالمین ہی سن سکااس بات میں کہاں تک معقولیت ہے وہ آں محترم خود سوچیں ہم کہیں گے توشکایت ہوگی۔
بہرحال اس احتمال کا فسادوبطلان اظہرمن الشمس ہے ہاں اگر کسی کو نظر نہ آئے تو اس کا کیا علاج ہے۔
(٥):((حدثناعبداللّٰه حدثني ابي ثنا وكيع ثنا شعبة عن قتادةعن انس قال صليت خلف رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وخلف ابي بكروعمرعثمان كانوالايجهروبسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ.))
(المسندللامام احمد:ج٢’ص١٧٩)