کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 237
ابي ليلٰي عن ثابت عن انس رضي اللّٰه عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال ان الانبياء لايتركون في قبورهم بعداربعين ليلةولكنهم يصلون بين يدي اللّٰه عزوجل حتي ينفخ في الصور))
اس روایت میں چارآفتیں ہیں پہلی بیہقی کےشیخ ابوعبداللہ الحافظ کااستاذابوحامداحمدبن علی الحسنوی ہےیہ متہم بالکذب راوی ہےخودامام حاکم نےاس کےمتعلق فرمایاہےکہ’’هو في الجملةغيرمحتج بحديث‘‘یعنی اس راوی کی حدیث قابل احتجاج نہیں اورخطیب بغدادی فرماتےہیں’’لم يكن بثقة‘‘یعنی یہ ثقہ نہیں ہے۔ یہ’’صيغه لم يكن بثقة يا ليس بثقة‘‘شدیدجرح کےالفاظ ہیں اوراس کےمتعلق امام محمدبن یوسف جرجانی فرماتےہیں کہ’’هوكذاب‘‘یعنی یہ کذاب ہےیعنی یہ جھوٹی حدیثیں بنانےوالاہے اسی طرح کےالفاظ اس کےمتعلق مشہورمحدث ابوالعباس الاصم نےبھی فرمائےہیں بہرحال یہ راوی کذاب ہے۔
دوسری آفت ابوعبداللہ محمدبن الحمصی ہےاس کاترجمہ کہیں بھی موجودنہیں معلوم نہیں،کہاں کی آفت ہےاسی طرح ایک اورآفت اسماعیل بن طلحہ بن یزیدہےیہ بھی غیرمعروف ہےاس کاترجمہ بھی ہمیں کہیں نہیں ملاہم ہماری بات چھوڑیں آج کےمشہورمحقق ناصرالدین الالبانی جوعرب کےمشہورمحقق فاضل عالم ہیں اورحدیث کےعلوم میں مہارت تامہ رکھتے ہیں فن رجال میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں وہ بھی اپنےرسالہ سلسلۃالاحادیث الضعیفہ والموضوعۃکےجزءثالث میں لکھتےہیں کہ محمدبن عباس اوراسماعیل بن طلحہ کاعلم انہیں نہیں ہوسکااورنہ ہی انہیں یہ معلوم ہوسکاکہ کسی محدث نےان کاترجمہ قائم بھی کیایانہیں اس سےاندازہ لگایاجاسکتاہےکہ یہ دونوں راوی کیاہیں دونوں مجہول وغیرمعروف ہیں چوتھی آفت محمدبن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی صورت میں ہےاس کےمتعلق رجال کی کتب میں ہےکہ سئی الحفظ جدا یعنی اس کاحافظہ سخت بگڑچکاتھا۔بہرحال ان آفات میں سےہرکوئی اپنی مثال آپ ہےایک آفت بھی اس روایت کےساقط الاعتبارہونےکےلیےکافی ہےچہ جائیکہ ایک’و‘کے