کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 226
عجمی کو عربی پر،کالے کو گورے پر اورگورے کوکالے پر فضیلت نہیں ،سب کےسب آدم کی اولادہیں ،آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایاتھا،تم میں سے اگر کسی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو محض تقویٰ کی بنا پر ہے ،ورنہ اگراب بھی ہر ملک کا الگ الگ نبی ہوتا توآج تک دنیا کے اس شاندارتصورکا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکتا تھا۔بلکہ دنیا اوربھی زیادہ متفرق برادریوں میں تقسیم ہوجاتی ۔اسلام اس شاندار تصورکا مظاہرہ ہر سال حجاز مقدس میں کرتا رہتا ہے ،جہاں ہردنیاکے مختلف خطوں سے آئے ہوئے لوگ مختلف ذات ،زبان قبیلے اورالگ الگ خصوصیات اورامتیازات اوراونچ نیچ کے باوجودبھی ایک ہی لباس میں ملبوس ہوکرایک ہی نمونہ وہئیت میں ایک ہی رب وحدہ لاشریک لہ کے سامنے جھک کردعامانگتے ہیں،وہاں پر کوئی امتیاز نظر نہیں آتا ،اگرچہ آپس میں باہمی کئی امتیازات کیوں نہ ہوں ۔کیا اس قسم کاتصور اوراس کا عملی مظاہرہ کسی دوسرے مذہب یا قوم یاکسی علاقے یا ملک کے لوگوں نے سوائے اسلام کے پیش کیا ہے ؟ہرگز نہیں ۔بے شمار فوائد اورانسانیت کی بھلائی کی باتوں میں سے یہ بھی ایک نہایت عظیم الشان عملی نمونہ ہے اس جیسا نہ کوئی پیش کرسکاہے اورنہ ہی کرسکے گا ،پس رہا یہ سوال کہ اس مقصد کے لیے عرب وحجاز کے خطے کو منتخب کرکے ایسے پیغمبروں کا کیوں انتخاب کیا گیا ،دوسرے ملکوں سے کیوں نہ ہوااس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگراللہ سبحانہ و تعالیٰ سندھ سے یایورپ وغیرہ سے یا کسی اورملک یا خطہ سے پیغمبرکا انتخاب کرتا توبھی یہی سوال اٹھایاجاتا، لہٰذا ایسے عظیم الشان پیغمبر کے انتخاب کے لیے عالمی برادری کو وجود میں لانے کے لیے جس بھی خطہ کا انتخاب ہوتا تولازما دوسرے ممالک سے اعتراض دہرایا،کہ اس مقصد کے لیےفلاں علاقہ ہی کیوں منتخب کیاگیا ؟ہماراخطہ کیوں نہ منتخب کیا گیا، حالانکہ اسی عالمی برادری کےوجودمیں لانے کے لیے ضروری تھا کہ ساری دنیا کے لیے ایک ہی پیشوااورپیغمبرہونا چاہیئے، اس لیے جہاں بھی اس کا انتخاب ہوتا تودوسرے خطے کے لوگ یہ سوال اٹھاتے،اس لیےانسانوں کو چاہیئے کہ اس بارے میں معاملہ اللہ پرہی چھوڑ دیں کیونکہ جہاں بھی اس کو مناسب نظرآیا اس نے وہاں سے اس کا انتخاب کرہی لیا اس میں کیا خرابی ہے ؟کیا اللہ کے ماننے