کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 217
طرح ہوتی ہے۔علاوہ ازیں اسی آیت کریمہ کےاندر(يُوحَىٰٓ إِلَىَّ)کےبعدپھردوبارہ یہ الفاظ ہیں۔(أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَٰحِدٌ)توکیایہ حضرات اس کےبھی معنی کریں گےکہ’’نہیں ہےتمہاراایک اللہ‘‘؟اگرنہیں توپھراس سےپہلےوالےجملہ میں اس خودساختہ معنی پراتنی ہٹ دھرمی کیوں؟قرآن کریم میں یہ ایک مثال نہیں ہےبلکہ ترکیب کی کتنی ہی مثالیں ہیں ہم یہاں پرچندمثالیں بیان کرتےہیں قرآن کریم میں سورت توبہ میں ہے:
﴿إِنَّمَا ٱلْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ (التوبة:٢٨)
عربیت کےان نئےمجتہدین کےمطابق اس کی معنی یہ ہوگی کہ نہیں ہیں مشرک پلید۔
سورۃالانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:
﴿إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ......الاية﴾ (الانفال:٢)
معنی اس کے(ان کےقائدے)کےمطابق یہ ہوگاکہ وہ لوگ مومن نہیں ہیں جن کےدل اللہ کےذکرپرخوف کےمارےکانپ جاتےہیں۔
﴿إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: ١۰)
’’بیشک مومن بھائی نہیں ہیں۔‘‘اور
﴿قُلْ إِنَّمَا ٱلْعِلْمُ عِندَ ٱللَّهِ وَإِنَّمَآ أَنَا۠ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌ﴾ (ملك: ٢٦)
آپ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کےپاس علم ہی نہیں ہےاورنہیں ہوں میں واضح ڈرانےوالا۔
بہرحال ہم نےتویہاں چندمثالیں عرض رکھیں بلکہ قرآن کریم توایسی ترکیبوں سےبھراہواہےپھریہ حضرات آخرکہاں تک اپنی خودساختہ معنی کرتےرہیں گے۔
حاصل کلام! کہ انمامیں’’ما‘‘نافیہ بنانےکی وجہ سےجومفاسدپیداہوں گےان کاکوئی حل نہیں ہےاورمعاذاللہ قرآن جیسی کتاب مہمل بن جاتی ہے۔قارئین کی آسانی کی بناپرہم صرف اتناعرض کرتےہیں کہ ان کےبعدآنےوالی’’ما‘‘کی ہم نےدواقسام بیان کی ہیں۔ایک ماکافہ جوکہ إِنَّ کوعمل سےروکتی ہےاگر إِنَّ کےساتھ آئےگی تواس سےمل کر