کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 216
جیسی دوسری جگہوں پر"إِنَّمَآ"کاکلمہ حصرکاہےجس کی صحیح معنی یہاں پریہ ہوگاکہ میں صرف تمہاری طرح انسان ہوں۔ لیکن ان لوگوں نےتوعربی کےقوانین کونظراندازکردیااورصرف عوام کودھوکہ دینےکےلیےاللہ کےکلام میں تحریر کرنےسےبھی دریغ نہ کیا۔علامہ ابن ہشام انصاری اپنی مایہ نازکتاب مغنی اللبیب کی جلد٢صفحہ٩پرلکھتےہیں: ((وليث ماللنفي بل هي بمنزلتهافي اخواتهماليتماولعلماولكناوكانما_)) ’’یعنی ان کےساتھ جو’’ما‘‘زائدہ یاکافہ آتی ہےوہ نفی کےلیےنہیں ہےبلکہ وہ اپنی دوسری اخوات کی طرف آتی ہے۔(یعنی جس طرح ان حروف میں مازائدہ کافۃہےاسی طرح إِنَّ وَأَنَّ کےساتھ بھی جوماہےوہ بھی زائدہ ہےنہ کہ نافیہ)لہٰذاجو إِنَّ مشبہ بالفعل ہےوہ’’ما‘‘نافیہ پرداخل نہیں ہوتی یعنی إِنَّ کواپنےعمل سےروکتی ہےاور’’ما‘‘اور’’الا‘‘حصرکی معنی پیداکرتےہیں یا إِنَّ کےبعدآنےوالی ماموصولہ ہوتی ہےاورموصولہ اسم ہوتاہےاس صورت میں’’ما‘‘موصولہ ان کااسم بن جائےگی لیکن اگران حضرات کےکہنےکےمطابق’’ما‘‘کونافیہ بنایاجائےتویہ’’ما‘‘صرفی ہوگی پھراسم میں اس کااسم یامسندالیہ بننےکی لیاقت ہی نہیں رہےگی کیونکہ حرف نہ مسندبن سکتاہےاورنہ ہی مسندالیہ لہٰذااس سورت میں إِنَّ کااسم کس چیزکوبنایاجائے۔’’ما‘‘اگرنافیہ بنائی جائےگی تو’’ما‘‘ ’’إِنَّ‘‘کااسم بنےگی اور’’بَشَرٌ‌ۭ مِّثْلُكُمْ‘‘اس کی خبربنےگی پھربتائیں کہ مااسم اورخبرسےمل کرکیاعبارت بنےگی؟اگرکہوگے؟یہ جملہ تاویل مصدرمیں ہوکران کااسم بنےگاتواس صورت میں معنی یہ ہوگاکہ بیشک میراآپ جیساانسان نہ ہونےکی وصی کی جاتی ہےمیری طرف۔ قارئین کرام! انصاف کریں کہ اس جملہ کےیہ معنی کیادیوانہ کےعلاوہ کوئی اورکرسکتاہے؟ہرگزنہیں بہرحال ایک توان’’ما‘‘نافیہ پرعمل نہیں کرتی دوسراکہ اگرتھوڑےسےوقت کےلیےاس کومانابھی جائےتواس کےمعنی ایسےغلط ہوں گےکہ اس کوصحیح کرنےکی کوئی صورت بھی نہیں بچتی،تعجب ہےکہ ان لوگوں کواللہ تعالیٰ کےکلام میں اس طرح کی جرات کس