کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 215
ان دونوں آیات کے درمیان واؤعاطفہ ہے مگرمرادایک ہی چیز ہے یعنی قرآن کریم کیونکہ قرآن اورکتاب میں جو معنوی مغایرۃ ہے وہی عطف کے لیے کافی ہے۔اسی طرح سورۃالاحزاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چندوصفیں بیان ہوئیں ہیں۔جیسے: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرً‌ۭا وَنَذِيرً‌ۭا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِۦ وَسِرَ‌اجًا مُّنِيرً‌ۭا﴾ (الاحزاب:٤٥’٤٦) قارئین کرام! غورکریں! یہاں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں۔شاہد،مبشر،نذیر،داعی الی اللہ،سراجاً،منیراًاوریہ تمام وصف عطف کےساتھ آئیں ہیں لیکن یہاں پریہ کہناکہ مبشراورنذیرکوئی الگ الگ ہستیاں ہیں کیونکہ واؤعاطفہ مغایرۃکوچاہتاہےتوکیااس طرح کہنادرست ہوگاہرگزہرگزنہیں۔کیونکہ شاہد،مبشر،نذیروغیرہاکےمعنی میں کچھ مغایرۃہےجوکہ عطف کوبنانےکےلیےکافی ہےخلاصہ کہ ان صاحبوں نےجوواؤعطف کی مغایرۃکابت کھڑاکیاتھاوہ حق آنےکےبعدسرنگوں ہوگیا۔ (جاءالحق وزهق الباطل) اب مطلب یہ ہواکہ سورۃالمائدہ میں نورسےمرادبھی قرآن کریم ہےجس طرح آیات میں قرآن کااطلاق ہےاورنورکہنےکی وجہ شبہ بھی ہم نےبیان کردی ہےاوروہ آیات بھی بیان فرمادیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبشرہونےکی صراحت موجودہے۔سورۃکہف اورحم سجدہ والی آیات﴿قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌ‌ۭ مِّثْلُكُمْ﴾والی آیت کےبارےمیں مشرکانہ خیالات رکھنےوالےحضرات ایسی مجلسوں میں جن میں کوئی عربی کاجاننےوالایاماہرنہیں ہوتاوہاں اپنےتجاہل عارفانہ کوعملی جامہ پہنانےکی کوشش کرتےہوئےسادہ لوح مسلمانوں کویہ کہہ کرگمراہ کرنےکی کوشش کرتےہیں کہ یہ وہابی حضرات آپ کواس آیت کاغلط مطلب بتاتےہیں کیونکہ إِنَّمَآ میں(ان کےکہنےکےمطابق)مَآنافیہ ہےاوراس کامطلب یہ ہےکہ نہیں ہوں میں آپ جیساانسان لیکن بھائی! یہ وہابی حضرات اللہ کےکلام میں بھی اپنےمطلب کی معانی نکالتےہیں اورلوگوں کوحق سےدورکرتےہیں۔درحقیقت اس جگہ یااس