کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 214
اورقرآن کریم پر نورکااطلاق اس لیے ہے کہ جس طرح نور(یعنی روشنی)میں سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے اسی طرح قرآن کریم سے بھی ضلالت کفروشرک کی تاریکیوں سے نکل کرہدایت وایمان کی روشنی میں آیا جاسکتا ہے۔ اورہرایک کو معلوم ہوجاتا ہےکہ ایمان کیا ہے کفرکیا ہے؟ ضلالت کیا ہے؟ ہدایت کیا ہے؟ بہرحال قرآن کریم اللہ کی کتاب قرآن پرنورکااطلاق ہوا ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروضاحت کے ساتھ کسی ایک جگہ پر بھی نورکااطلاق نہیں ہوابلکہ ان کے بشرہونے کی صراحت کی گئی ہے جس طرح پہلے گزرچکاہےکچھ حضرات سورہ مائدہ کی اس آیت کریمہ: ﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّٰهِ نُورٌ‌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ﴾ (المائدہ:١٥) ’’یعنی تمہار ے پاس اللہ کی طرف سے نور اورواضح کتاب آچکی ہے۔‘‘ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس آیت کریمہ میں نورپر﴿كِتَابٌ مُّبِينٌ﴾کومعطوف بنایاگیاہےاورعطف مغایرۃ کو چاہتا ہے اس لیے كِتَابٌ مُّبِينٌاورنوردوعلیحدہ چیزیں ہیں لہٰذا كِتَابٌ مُّبِينٌسےتوقرآن ہی مرادہے لیکن نورسےمرادنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حالانکہ ہم پہلے بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ قرآن کریم میں قرآن پرنورکی صراحت واضح نہیں ہے۔ لہٰذا بموجب قائدہ’’القرآن يفسربعضه بعضا‘‘اس آيت کریمہ میں بھی نورسےمرادقرآن عزیز ہےاورایک چیز کی چند وصفیں صرف عطف کے ساتھ آجاتی ہیں۔ اورباقی رہی،مغایرۃ والی بات توعطف مغایرۃ کو چاہتا ہے اوران صفتوں میں معنوی مغایرۃ جو عطف کے لیے کافی ہے۔اس کی مثال قرآن کریم میں بھی کافی ہیں مثلاً سورۃ حجرکی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿الٓر‌ ۚ تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْكِتَـٰبِ وَقُرْ‌ءَانٍ مُّبِينٍ﴾ (الحجر:١) ’’یعنی الر،یہ آیتیں ہیں کتاب کی قرآن مبین کی۔‘‘ اورظاہر ہے کہ کتاب اورقرآن دونوں سےمرادقرآن ہی ہے کتاب اس لیے کہا جاتاہے کہ لکھا ہوا ہے اسی طرح سورت نمل کی بھی ابتدائی آیات میں ہے: ﴿طسٓ ۚ تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْقُرْ‌ءَانِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ (النمل:١)