کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 199
نے کوئی نیک عمل کیا ہی نہیں ہوگا مگر ان تمام احادیث پر ایک مومن کو ایمان لانا ہے کسی کوترک نہیں کرنا یہ بھی سچ اوروہ بھی سچ ہے ۔ہمارافرض ہے کہ شارع علیہ السلام کی ہربات پر آمناوصدقنا،سمعناواطعناکہیں۔بہرحال مجموعی طورپرکتنی ہی احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے سنگین گناہوں (مثلاًترک نماز)کے مرتکبین کی بھی بالآخر نجات ہوجائے گی۔
اگرکوئی سورہ مدثرکی یہ آیت پیش کرے گاکہ:
﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَـٰعَةُ ٱلشَّـٰفِعِينَ﴾ (المدثر:٤٨)
’’میں ان کو سفارشیوں کی سفارش فائدہ نہیں پہنچائے گی۔‘‘
اوراس آیت سے چند آیات پہلے یہ الفاظ ہیں کہ :
﴿يَتَسَآءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ ٱلْمُجْرِمِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِى سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا۟ لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ (المدثر: ٤٠تا۴۳)
’’یعنی جہنمی کہیں گے کہ ہمیں جہنم اس وجہ سے جانا پڑا ہےکہ ہم بے نمازی تھے،پھر ان کو کوئی شفاعت بھی فائدہ نہیں پہنچاسکے گی۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں ہے کہ جہنمی کہیں گے:
﴿لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ﴾ (المدثر:۴۳)
’’کہ ہم نمازی نہیں تھے۔‘‘
کے ساتھ کچھ اورکام اورغلط اعتقادبیان کریں گے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:
﴿وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ﴾ (المدثر:۴٦)
’’یعنی ہم دنیا میں قیامت کے دن(انصاف کے دن)کونہیں مانتے تھے۔‘‘
اورظاہرہے کہ قیامت کے دن پرایمان نہ رکھنا کفر ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو شفاعت واقعتاً کچھ فائدہ نہیں دے گی بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اس میں توکوئی اختلاف ہی نہیں۔ان آیات سے مجموعی طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترک نماز جہنم میں جانے کا سبب ہے تویہ بات تومسلم ہے کہ بے نمازی جہنم میں جائیں گے باقی رہا جانے کے بعد نکلیں گے