کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 197
نَصِيرًا﴾ (النساء:١٤٥)
’’بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجےمیں ہوں گےاورنہ کوئی آپ ان کا مددگارپائیں گے۔‘‘
اورجسے ہم کافرسمجھیں اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ وہ واقعتاً کافرہوبلکہ ممکن ہےآخرت میں اس کا شمارمومنین کاملین میں ہواورجنت میں اعلی درجہ پر فائز ہوجائے یہ سب اس لیے ہےکہ انسانوں کو صر ف ظاہر پر چلنے کا مکلف بنایاگیا ہے ہم(یعنی انسان)صرف ظاہر پر فیصلہ کرنے اوراس کے مطا بق احکام لاگو کرنے کے مجاز ہیں اندرونی معاملہ اس کا کیاہے؟اس کے متعلق ہمیں شریعت نے کسی بھی تکلیف کا پابند نہیں بنایاکیونکہ اس طرح کےمعاملات ہم نہیں جان سکتے اورنہ ہی کوئی ایساکوئی وسیلہ وذریعہ یا الٰہ ہمیں ملا ہوا ہے جس کےذریعہ کسی کی اندرونی کیفیت معلوم کرسکیں اندرکا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے یہ اللہ جل وعلاکی ہی خصوصی صفت ہےجس میں اس کا کوئی بھی شریک وسہیم نہیں حتیٰ کہ ملک مقرب اورنبی مرسل بھی نہیں،اس حقیقت کوذہن نشین کرنے کے بعد اب اصل مسئلہ کو لیا جاتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک نمازنہایت کبیرہ گناہ ہے اورانسان کو جہنم کا مستحق بناتاہےاورانسان اللہ کے نزدیک سخت مغضوب بن جاتا ہے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کام(ترک نماز)پر صحیح احادیث میں کفرکااطلاق ہوا ہے لیکن ان کے علاوہ کئی دیگر احادیث میں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ (اوروہ احادیث سنداًومتناًبالکل صحیح ہیں)اللہ تعالیٰ قیامت کےدن فرمائے گا کہ جاؤاورجاکرجہنم سے ایسے لوگوں کو نکال لاؤجن کے دل میں سے گندم کےدانے کے برابر ایمان ہو،جس کے دل میں جوکے دانے کےبرابر ایمان ہو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو جس کے دل میں ذرہ برابرایمان ہو اورکچھ دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخر ایسے انسانوں کو بھی جہنم سے نکالنے کاحکم ہوگا جنہوں نے کبھی بھی نیک عمل نہیں کیا ہوگاصرف ایمان کا ذرہ ہوگا جس کی وجہ سے اسے جہنم سے نکالاجائے گاباقی وہی جاکررہیں گے جنہیں کتا ب اللہ نے (جہنم سے نکلنے سے)روکاہوگایعنی مشرکین وکفارباقی