کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 196
قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّكُم بِاللّٰهِ الْغَرُورُ﴾ (الحدید:۱۳۔١٤)
حالانکہ دنیامیں مسلمانوں نے انہیں مسلمان سمجھ کران کے ساتھ وہی مسلمانوں والاسلوک اختیارکیا خود سیدنا وامامنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رب کریم نے فرمایاکہ:
﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ ٱلْأَعْرَابِ مُنَـٰفِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ ٱلْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا۟ عَلَى ٱلنِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾ (التوبہ:١ ۰ ١)
’’اورتمہارے گردوپیش جو دیہاتی ہیں(ان میں)منافق ہیں اورمدینہ والوں میں سے بھی جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں آپ انھیں نہیں جانتے ہم انھیں جانتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ کچھ منافقین ایسے بھی تھے جوسب کام مسلمانوں جیسےکرتے تھے نمازیں بھی پڑھتے تھے اوردیگر کام بھی کرتے تھے اس لیے خود اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں پہچان نہ سکے صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ان کے نفاق کا علم تھا۔ اسی وجہ سےوہ دنیا میں مسلمان بنے رہے اوراہل دنیا نے ان کے ساتھ مسلمانوں کا سامعاملہ کیا انہیں رشتے دیے ان پر نماز جنازہ اداکی،ان کو مسلمانوں کے قبرستانون میں دفن کیا گیا کہ لیکن آگے چل کروہ مسلمانوں سے بالکل الگ ہوجائیں گے اوراسی لیے مومنین سے کہیں گے کہ ہماری طرف دیکھیں تاکہ ہم تمہاری روشنی سے کچھ حصہ حاصل کریں اس طویل کلام کا مطلب یہ ہے کہ کچھ معاملات میں خصوصاً ایمانی اورقلبی حالات کے معاملات میں دنیا اورآخرت میں فرق کیا گیا ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص کو ہم سچامومن سمجھیں اورواقعتاً وہ سچامومن ہی ہو بلکہ ممکن ہے کہ وہ آخرت میں چل کر اپنی چھپی ہوئی منافقت کی وجہ مومنین سےالگ کفار کے ساتھ جاکرمل جائے بلکہ ان سے بھی نچلے طبقے میں:
﴿إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ