کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 195
سب زمین میں دھنس جائیں گے مگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی نیت کے مطابق اٹھائے گایعنی جس کی نیت بری ہوگی وہ وہاں بھی سزاپائے گا یعنی کفارکے ساتھ جاکرملے گاباقی جن کی یہ نیت نہ ہوگی وہ بری نیت لےکر آئے ہی نہیں ہوں گے توان کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہوگابلکہ اخروی عذاب سے نجات پائیں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جو احکامات کچھ معاملات میں انسانوں پر جاری ہوتے ہیں۔آخرت میں ان معاملات کے احکامات دنیا سے بالکل مختلف ہوں گے کیونکہ وہاں توفیصلہ صحیح اوراصل واقعہ کے مطابق ہوں گے اوردنیا میں صرف ظاہر پرہی حکم لگایا جاتا ہے اس سے یہ بھی سمجھ میں آیا کہ جب کسی عذاب یا کسی معاملہ میں ایک پوری جماعت (دنیا میں)گرفتارہوئی تواس سے یہی اندازہ لگانا صحیح نہیں ہوگا کہ وہ عذاب میں مبتلا انسان سارے کےسارے مجرم تھے بلکہ ممکن ہے ان میں سے کچھ ان گناہوں کے مرتکب نہ ہوں اگرچہ ظاہراً یہی اندازہ لگایا جائے گا کہ وہ سب ایک ہی بات میں یعنی سب کے سب مجرم ہیں جیسا کہ کعبۃ اللہ شریف کو شہید کرنے والے جب غرق ہوئے تودیکھنے والے یہی اندازہ لگائیں گےکہ وہ سب نیت بد سے آئے تھے سب کے سب بے ایمان تھے۔
حالانکہ ارشادگرامی کے مطابق آخرت میں ان کے درمیان تفریق کی جائےگی کیونکہ آخرت میں اصل معاملہ اپنی اصلی اورصحیح صورت میں جاکرظاہر ہوگا جوکہ دنیا میں اہل دنیاسے اوجھل تھا۔ اسی طرح منافقین کا معاملہ بھی یہی ہے یعنی مسلمان انہیں مسلمانوں والے کام کرتے دیکھ کر مسلمان سمجھتے ہیں اوران کے ساتھ مسلمانوں کا ساسلوک اوراسی طرح کامعاملہ کرتے ہیں لیکن آخرت میں وہ منافقین مسلمانوں سے قطعی طورپرالگ ہوجائیں گےجس طرح سورۃ حدید میں ارشاد ہے:
﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن