کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 194
اس صورت میں وہ جبراً لایاہوامسلمان عنداللہ اگرچہ مسلمان ومومن ہے مگراس بات کا علم مسلمانوں (جنگ میں شریک)کونہیں آخر اتفاقاً وہ مسلمان جو جبراًکفارکے ساتھ ہےمسلمانوں کی زد میں آجاتا ہے ۔اوراس مسلمان کے متعلق دیگر مسلمان اس کو جو بظاہر کافرمعلوم ہورہا ہے چوٹ لگاکرماردیتے ہیں تو اس صورت میں مسلمانوں کے اوپر کوئی گناہ نہیں کیونکہ انہوں نے اس کو مسلمان نہیں بلکہ کافر سمجھ کرماراہے یعنی دنیا میں تو وہ اس حالت کی وجہ سے کافر سمجھاگیااوراس کے اوپر کفارکے احکام جاری ہوگئے لیکن آخرت میں اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ وہ مسلمان ہے مگر مجبوراًظلم کی وجہ سے کفارکےساتھ شامل ہوگیا ہے اس لیے رب کریم اس کا ایمان واسلام ضائع نہیں فرمائے گا۔
اوروہ جنت میں داخل ہوگاکیونکہ آخرت میں ہر کسی کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جس کا وہ ظاہراً وباطناً اورحقیقتاً واقعتاً مستحق ہے صرف ظاہر ہی پر فیصلہ نہ ہوگا اورچونکہ وہ مسلمان دنیامیں سچا ومخلص مومن تھا لیکن اس کا ایمان مجبوراًاورظلم کی وجہ سے ظاہر نہ ہوسکالیکن اس کاایمان اس مالک العلام ذات سے تومخفی نہ تھا جو عالم الغیب والشہادۃ ہے اورعلیم بذات الصدورہے بہرحال وہ مسلمان ظاہراً توکفارکےساتھ ہونے کی وجہ سے کافرسمجھا گیا اوراس پرانہی کے احکام لاگوہوئے لیکن آخرت میں اس کی کیفیت ظاہر ہوجائے گی اوروہ اس سچےایمان کی بدولت جنت میں داخل ہوگا۔
دوسری مثال حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآخری زمانہ میں ایک لشکرکعبۃ اللہ شریف کو شہید کرنے کے لیے آئے گاپھر جب وہ قریب ہوں گے توسارے کے سارے زمین میں دھنس جائیں گے تب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (جو اس حدیث کی راویہ ہیں)نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سب کے سب کیونکر دھنس جائیں گے حالانکہ ان میں کچھ توواقعتاً کعبۃ اللہ شریف کوشہید کرنے کی نیت سےآئے ہوں گے مگر کچھ تومجبوری کی وجہ سے یا کرایہ پر آئے ہوں گے یا راستے میں اتفاقاً مل گئے ہوں گے پھر سب کے ساتھ یہی معاملہ (زمین میں دھنس جانا)کس طرح ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایافی الحال توسب کے