کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 193
کی ہوگی توان کی مغفرت تودنیا میں ہی ہوگئی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جوبھی صدق دل سے توبہ کرے گا میں اسے معاف کردوں گا مگر جو اللہ تعالیٰ کی مشیت پرمنحصر گناہ ہوں گے اوروہ گناہ ہوں گے جن کی وہ توبہ نہ کرسکا ہوگا۔ خلاصہ کلام! جب سارے گناہ شرک کے علاوہ اللہ تعالیٰ چاہے تومعاف کرسکتا ہے تو کہاجاسکتا ہے کہ ان گناہوں کے مرتکبین کافر نہیں ہوئے تھے کیونکہ کافر کی مغفرت آخرت میں نہیں ہوگی، پھرجب وہ کافر ہی نہ رہا جہنم میں’’یعنی جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے گناہوں کےسبب جہنم میں بھیج دے۔‘‘ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ مقدرسزاکے بعد بالآخر جہنم سےنکلے گاکیونکہ ابدی خلودکفارکے لیے ہے اگرچہ کتاب وسنت میں کچھ گنہگاروں کی سزاجہنم سے نکلنے کاذکر بھی ہے اوریہ سب احادیث صحیح ہیں الغرض زانی اورشراب نوش وغیرہما اگرابتداءً اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان کے نصیب میں نہ آسکی توبھی سزاپاکربالآخر جہنم سے نکلیں گے باقی رہابے نمازی تواس کے متعلق امت میں بہت اختلاف ہے خود جماعت اہلحدیث کے اکابرین میں میں بھی اختلاف ہے کچھ مولانا حصاروی جیسے تواسے کافر، بے ایمان اوردوزخ میں ابدی خلودکامستحق قراردیتے ہیں اورکچھ بزرگ اسے ایسا کافرقرارنہیں دیتے بلکہ اس کے متعلق جو کفرکے الفاظ کا اطلاق ہوا ہے ان سے کفر دون کفر مرادلیتے ہیں۔اس راقم الحروف بندہ عیب دارگنہگار کے ذہن میں ان دونوں صورتوں کے علاوہ ایک اورصورت آئی ہے۔ بہرحال یہاں پر میں وہ تفصیل کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں بغورمالاحظہ فرمائیں! اگر صحیح نظر آئے تو فبہاورنہ جوبات زیادہ صحیح ودرست ہواسے اختیارکیجئے ۔’’اللّٰه م ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه.‘‘ پہلے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کچھ باتوں میں شریعت مطہرہ نے دنیا وآخرت کےمعاملات میں فرق کیا ہے ۔مثلاً کوئی شخص ہے جو اگرچہ مومن ہے مگر کفاراسے زبردستی باندھ کرمسلمانوں کے مقابلہ میں لے کرآئے ہیں(یعنی مسلمانوں اورکفارکے درمیان جنگ جاری ہواورکفارنے ایک مسلمان کو زبردستی لاکرمسلمانوں کے مقابلہ میں لاکھڑاکردیا۔)تو