کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 192
کہ مسلمان کو ایسی فتوی بازی میں سخت احتیاط برتنی چاہیے اورجلد بازی سے ہرگز ہرگز کام نہ لے کیونکہ معاملہ نہایت خطرناک ہے اگر ہم کسی شخص کو مسلمان جاننے میں غلطی کے مرتکب ہوئے اورہم نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اس پر کفر کی فتوی تھوپ دیا اوراس کے ساتھ کفارکامعاملہ اختیارکیا تو اس سے سخت خطرہ درپیش ہے اوروہ حکم الٹا ہمارے اوپر ’’العیاذباللہ‘‘آجائے گا۔ علاوہ ازیں خود قرآن میں سورہ نساء میں دوجگہوں پر تصریح واردہوئی ہے کہ شرک کےعلاوہ دیگر تمام گناہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہیں اگرچاہے معاف کردے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء:۴۸) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نہیں معاف کرے گا یہ کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اس کے علاوہ جسے چاہے معاف کردے ۔‘‘ نیزیہ بھی ظاہر ہے کہ یہ مغفرت یاعدم مغفرت آخرت سے متعلق ہے نہ کہ دنیا سےمتعلق کیونکہ دنیا میں تو(یعنی زندگی میں)اگرایک مشرک بھی توبہ تائب ہوکراورصدق دل سے مسلمان ہوجائے تواس کی مغفرت ہوجائے گی ۔مطلب کہ یہ آیت کریمہ بتارہی ہےکہ آخرت میں شرک کے علاوہ دیگر گناہ اللہ تعالیٰ اگرمعاف کرنا چاہیں تومعاف کرسکتے ہیں اوراس کی مؤیدوہ حدیث بھی ہے جوترمذی شریف میں سیدناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اوراس پرامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن صحیح کا حکم لگایا ہے اس میں یہ الفاظ بھی واردہوئے ہیں: ((ياابن آدم انك لواتيتني بقراب الارض خطايا ثم لقيتني لاتشرك بي شيئا لا تيتك بقرابها مغفرة.)) اس حديث میں تصریح ہے کہ یہ دیگر تمام گناہوں کی مغفرت (شرک کے علاوہ)والی بات آخرت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اوریہ بھی ظاہر ہے کہ یہ مغفرت انہیں حاصل ہوگی جنہوں نے بالفعل دنیا میں توبہ نہیں کی ہوگی کیونکہ اگرانہوں نے دنیا میں صدق دل سے توبہ