کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 191
یادیگر جملہ احادیث صحیحہ کو ترک کرکے اس کے مرتکب کو کافرقراردےدیاجائے بلکہ اسے کافرکہنا خطرناک ہے کیونکہ یہ بھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد ہےکہ: ((ايماامريءقال لاخيه ياكافرفقدباءبهااحدهماان كان كما قال والا رجعت عليه)) [1] ’’یعنی جوشخص اپنے بھائی کو کافرکےلقب سے پکارتا ہے توپھر ان دونوں میں سے ایک ضرورکافرہوگا۔‘‘ اس کی صورت اس طرح ہے کہ مثلاً کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اوردوسراشخص اسے دیکھ کر کافر کہہ دیتا ہے یا ویسے ہی اسے کافر کہہ کر پکاراتواب اگرواقعتاوہ کفرکامرتکب ہواہےتووہی کافررہے گا ورنہ کہنے والاکافربن جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا((لاخيه))یعنی اپنے بھائی کویہ لفظ بتاتاہے کہ وہ جس کو کافر کےلقب سے پکاررہا ہے وہ مسلمان ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس حدیث میں جوکفرکا لفظ استعمال ہوا ہے وہ اس لیے کہ اس کہنے والے نے اس کے متعلق کافرکالفظ بولاہے جسے مسلمان سمجھ کر بھی کافرکہہ دیاتب کافر ہوگیا یعنی اس طرح کہنا بھی غلط ہے کیونکہ اس صورت میں آپ یہ نہ فرماتے کہ’’فقد باء بها اهدهما‘‘بلکہ اس طرح فرماتے کہ ’’فقد باء بها قائله‘‘مگراس جگہ پر دونوں میں سے لاعلی التعیین کفرمیں مبتلا ہونے والاکہا گیا ہے وہ اس لیے کہ ایسی صورت ہوکہ جسے کافرکہا گیا ہے اس سے کوئی ایسا گناہ صادرہوگیا ہویا اس نےایسا نمونہ اختیارکیا ہو کہ اسےدیکھ کردوسراشخص اس کو کافرکہہ دےپھر اس صورت میں اگرواقعتاًاس نے وہ گناہ سمجھ کرکیا یا العیاذباللہ مرتدہوگیا ہے توکافر کا اطلاق کرنے والاچھوٹ جائے گااوروہ ویسے کافر رہے گا مگر اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے یعنی وہ گناہ کا مستعمل نہیں اورنہ ہی نعوذباللہ مرتدہوا ہے توپھرقائل اپنا خیر طلب کرے،اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے
[1] صحيح مسلم:كتاب الايمان’باب بيان حال ايمان من قال لاخيه المسلم ياكافر:رقم الحديث:٢١٥.