کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 190
محدثین رحمہم اللہ مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کفردون کفرمرادلیتے ہیں نہ کہ وہ کفر جو ایمان کے مدمقابل ہےجیسا کہ حدیث شریف میں کفرکااطلاق احسان فراموشی پرکیا گیا ہے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سےخطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ تم جہنم میں زیادہ تعدادمیں جاؤگی انہوں نے سبب پوچھاتوآپ نے فرمایاکہ’’تکفرن‘‘تم کفرکرتی ہوانہوں نےپھردریافت کیا کہ کیا ہم اللہ سے کفر کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مردوں یعنی اپنے شوہروں کی احسان فرموشی کرتی ہو۔اب دیکھیں اس مقام پر آپ نے مطلق کفرکالفظ ارشادفرمایالیکن پھر پوچھنے کے بعد فرمایاکہ اس سے مراد کفر اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہیں ہےاسی طرح بھگوڑے غلام پر بھی کافرکے لفظ کا اطلاق ہواہے۔(صحیح مسلم)
حالانکہ غلام کا بھاگ جاناگناہ اپنی جگہ پر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرتونہیں اسی طرح صحیح حدیث میں واردہوا ہےکہ :
((سباب المسلم فسوق وقتاله كفر.))
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اوراس کے ساتھ قتال (لڑنا )کفرہے۔‘‘
حالانکہ قرآن حکیم نے مسلمانوں میں سے دوجماعتوں کو مومن کے لفظ سے ملقب کیا ہے:
﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات:٩)
یعنی قتال کی وجہ سے مومن سے ایمان خارج نہیں ہوجاتاتوپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان’’مومن سے قتال کفرہے۔‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کام کفریہ ہے یا کفردون کفرہےجس طرح اعمال صالحہ ایمان کے حصے ہیں مگر بعض اعمال کی اہمیت بتانے کے لیے ان پر ایمان کااطلاق ہوتا ہے یا مثلاً سورۃ الفاتحہ کی اہمیت کی خاطر حدیث شریف میں اسے صلاۃ کہا گیا ہے حالانکہ صرف سورۃ الفاتحہ ہی تونمازنہیں بلکہ اس کے علاوہ،قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ اس کےارکان ہیں اسی طرح گناہ بھی کفرکےاجزاء ہیں لہٰذا ان کے اوپربسااوقات کفرکا اطلاق ہوتاہے توپھرصرف اسی ایک جگہ پر واردلفظ کفرکودیکھ کراوردیگرتمام دلائل کونظر اندازکردیا جائے