کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 189
ویسے ہی سزاپانے کے بعدپھر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سےجہنم سےنکلیں گے۔
علاوہ ازیں اس مطلب کی صحیح حدیث مؤيد ہےجوسیدناعبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم مجھ سے شرک نہ کرنے زنا نہ کرنےچوری نہ کرنے وغیرہ وغیرہ پر بیعت کرو، پھراگرجوشخص اپنی بیعت پرقائم رہا اس کا اجراللہ تعالیٰ کے سپرد ہے لیکن اگر کسی سے کوئی گناہ سرزدہوگیایعنی ایسا کام کیا کہ حد کو پہنچ گیا(مثلاًچوری،زنا)پھراس کے متعلق دنیا میں معلوم ہوجانے پر اس پر حد جاری ہوگئی تووہ گناہ اس سے اترگیا یعنی حد اس کے لیے کفارہ بن گئی۔ (اس سے ظاہر ہے کہ چوریا زانی سے ایمان نہیں ہے بلکہ گنہگارہے کیونکہ حد تومسلمان پر ہی نافذ ہوتی ہے اوراس کے لیے ہی کفارہ بن سکتی ہے نہ کہ کافرکے لیے اوراس سے بھی زیادہ صریح اس حدیث کا اگلا حصہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’اوراگروہ گناہ اس سے سرزدہوگئےمگراللہ تعالیٰ نے اسے چھپایایعنی اس پر حد نافذ نہ ہوئی توپھر وہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اگر چاہے تواسے معاف کردےاورچاہے تواسے سزادے۔اس سے واضح ہواکہ زانی یاچوربےا یمان نہیں ہے کیونکہ بے ایمان (کافر)کی مغفرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ یہ صحیح حدیث بتاتی ہے کہ اس کی مغفرت اللہ تعالیٰ کی مشیت مبارک پر منحصر ہے ،یعنی اگرچاہے اسے معاف کردے اگرچاہے اسے سزادےاورحدیث کا سیاق وسباق خود اس بات پر دال ہے کہ وہ سزا پاکرمغفرت سے مشرف ہوگا کیونکہ وہ صر ف ایک گناہ ہے ۔بہرحال اس میں شک نہیں ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہیں جن کامرتکب جہنم کابھی مستحق ہے۔بہرحال گناہ ہے کفر یابےایمانی نہیں’’ہاں جو شخص ان گناہوں کو حلال سمجھے تووہ بلاشک کافر ہے۔‘‘اوربیشماراحادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ جن گناہوں کی وجہ سے کوئی شخص جہنم میں داخل ہوگا وہ بالآخرسزاپاکرپھراس سے شفاعت کی وجہ سےیا پھر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے باہر نکل آئے گااورامت اہل سنت کا’’خوارج اورمعتزلہ‘‘کے علاوہ اس پر اجماع ہے کہ کبیرہ کا مرتکب ایسا کافر نہیں کہ اس کا جہنم سے نکلنا نہ ہوسکے اگرچہ کچھ مقامات پرایسے گناہوں پر کفر کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے لیکن اس سے