کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 188
طلب ہے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنی سمجھ کے مطابق اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں ۔پھراگروہ صواب ہوئی تویہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے ورنہ اگرکوئی خطا واقع ہوئی تو’’فمني ومن نفسي‘‘معلوم ہونا چاہیے کہ زانی وشرابی کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں اورہیں بھی وہ سب کی سب صحیح کچھ میں یہ بیان ہوا ہے: ((ولا يزني الزاني حين يزني وهو مومن ولا يشرب الخمرحين يشرب وهومومن.)) [1] نیزدیگراحادیث میں ہے کہ آخری نجات پانے والاشخص موحد ہوگا اوریہ صراحت بیان ہوئی ہے کہ وہ بالآخر جنت میں داخل ہوگا: ((وان زني وان سرق.)) یعنی اگرچہ اس نے زنا کیا ہویا چوری کی ہو ۔اورسیدنا ابوذررضی اللہ عنہ(جو اس حدیث کےراوی ہیں)کے تین مرتبہ پوچھنے پر کہ’’وان زني وان سرق’‘آب صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مرتبہ جواب دیا’‘وان زني وان سرق’‘ایسی مختلف فیہ احادیث کے متعلق محدثین رحمہم اللہ کایہ اصول ہے کہ اگران دونوں احادیث میں جمع وتطبیق ممکن ہوتوان دونوں میں جمع وتطبیق پیش کی جائے گی۔ لہٰذا ان دونوں قسم کی احادیث میں جمع اس طرح کی جائے گی ‘’اس تطبیق کی مئویددیگراحادیث بھی ہیں جو بالکل صحیح ہیں۔’‘کہ جن احادیث میں یہ بیان ہے کہ زانی اورشرابی یا چورمومن نہیں،ان کا مطلب ہے کہ کامل مومن نہیں اورجن میں ان کی نجات کاذکرہے اورجنتی ہونے کا بیان ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف نہ فرمایاتوبالآخر گناہوں کی سزاپاکربعدمیں جہنم سےنکلیں گے اورجنت میں داخل ہوجائیں گے جیساکہ کئی صحیح احادیث میں بیان ہواہے کہ کچھ کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف فرمادے گا(گناہوں کی سزاپانے کے بغیر ہی)توکچھ کو سزابھی ملے گی اس کے بعد کچھ شفاعت کے ساتھ اورکچھ
[1] صحيح بخاري:كتاب المظالم’باب النهي بغير اذن صاحب’رقم الحديث’٢٤٧٥.