کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 182
انسان کو عمل کی آزادی دی ہے تاکہ اس کوآزمایاجائے اورانسان اس آزادی سے کوئی بھی کام لے چاہے اچھا لے یا برا۔اپنی مرضی اورارادے سے اللہ تعالیٰ نے اتنا کیا ہے کہ ایسانظام قائم کردیا ہے جس سے انسانی ارادے کی آزادی بھی برقراررہتی ہے اورآزمائش کی صورت بھی عمل میں جاتی ہے۔ فرض کریں کہ کسی آدمی کے چند نوکریا ملازم ہوں یا چند بیٹے ہوں وہ ان نمونے اورطرزعمل سے اندازہ لگالیتاہےکہ فلاں خادم فرمانبردارہے یا فلاں بیٹا فرمانبردارہے،لیکن اگروہ محض اپنے اندازے کے مطابق ان کے ساتھ نافرمانوں والاسلوک کرےگاتووہ کہہ سکتے ہیں کہ باباسائیں ہمیں آزمالیتا،بغیرآزمانے کے ہمارے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے یا یہ سزادیتا ہےان کی اس حجت کو ختم کرنے کے لیے ان پر کوئی کام رکھتا ہے یا ان کو کوئی ذمہ داری دیتا ہے،پھر وہ فرمانبرداری یا نافرمان اس ذمہ داری پوری کرنے یا نہ کرنے کی وجہ سے مالک یا باپ کی طرف سے مناسب سلوک یا جزاوسزاپالیں توان کو یہ حق کہاں ہے کہ وہ کہہ دیں ہم ایسے ہیں اس لیے اس کے علاوہ کیا بن سکتے تھے۔ کیونکہ اس آدمی کا علم ان کے طرز عمل کے سبب تھا ، لہٰذا اس علم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے ان کو مجبورکیا،اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے توتمام انسانوں کی فطرت صحیح سالم پیداکی ہے ،لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد اس عالم کے جو اسباب اس کے سامنے آئے ہیں ان کواپنی مرضی سے اختیار کرنے کے سبب وہ نتائج اس کے دامن میں پھنس جاتے ہیں،یہاں ہم انسانوں کو لوگوں کے طرز عمل سے اندازہ ہوجاتا ہے لیکن وہ طرز عمل کس سبب سے ہوا وہ کبھی معلوم ہوجاتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس کو یہ اسباب سامنے آئیں گے جس وجہ سے وہ اپنی آزادی کے اختیارکے مطابق اس کو اپنائے گا اورنتیجہ بھگتے گا،تویہ آزادی آزمائش کے لیے ضروری تھی۔ دوسری مثال:ایک ماہرڈاکٹر کسی مریض کے چیک اپ کے بعد اس کو کہہ دے کہ یہ نہیں بچے گاپھروہ آدمی واقعتاً مرگیا توکیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اس ڈاکٹر نے اس کو مارڈالا