کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 181
کہاں ہوں گی یا کہاں پرزیادہ ہوں گی اورروشنی کے لیے سورج اورچاند وستارے وغیرہ ہوں گے ان سب کے لیے خاص دائرہ یا جگہ یا حلقہ مقرر ومعین ہوگا اس کرہ ارض میں سمندراوردریاوں کی وراثت کس طرح ہوگی؟خشکی کی اراضی کس طرح ہوگی؟سورج زمین سے کتنا دورہوناچاہیئے؟زمین پر موسموں کااندازہ اورتقسیم ہونی چاہیئے پھر ان موسمی مضراثرات سے بچاؤیادوسری کائناتی نقصان کاراشیاء سے بچنے کے لیے کیا تدابیر ہونی چاہیئے ؟اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا علم واندازہ بہر حال اس بڑے گھرجس میں ضروریات کی تمام چیزیں موجودہوں اس کے مکمل منصوبے کے بعد اس میں باارادہ مخلوق کو بسانے اوراس کے نسلی اضافے کے ان کاکرہ ارض کے مختلف خطوں اورعلاقوں میں آبادہونا اوراس کے بعد اس کے ماحول حالات وکیفیات میں اختلاف کے سبب اسی مخلوق کے احوال واعمال کرنا،بودوباش میں اختلاف ہوگااورجن کو جہاں خاص امورسے دوچارہوناپڑے گا،اس کے مطابق خود کو ان حالات کےمطابق بنانے کی کوشش کرے گا،کچھ ناگزیر اسباب کی وجہ سے ان کے عقائد واعمال اخلاق وغیرہ میں اختلاف ہوگا۔جس کی وجہ سے منافرت اورایک دوسرے کے مقابلے بھی ہوں گےاورکئی وجوہ کی بنا پر وہ برائیوں اوربداخلاقیوں میں بھی سب گرفتارہوں گے،لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حجت پوری کرنے کے لیے ان پر انبیاء بھیجے گاجوان کو شرسےخیر کی طرف آنے کی دعوت دیں گے اورجنہوں نے ان کی بات کو مانا وہ دونوں جہانوں میں کامیاب ہوں گےاورجنہوں نے ان کی بات کو نہ ماناوہ نتیجتاً بڑے وبال سے دوچارہوں گے یعنی اسی طرف اللہ تعالیٰ کو نہ صرف کلی یا اجمالی طرح بلکہ تفصیلی اورہرجزکا علم تھا کہ اس آدمی کویہ باتیں پیش آئیں گی۔ جس کی وجہ سے یہ ہدایت یافتہ ہوگااوریہ اسباب سامنے آئیں گے جس کی بنا پر وہ گمراہ ہوگا۔ اس سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کو اس راستے پر چلایا یا خود اس سےیہ گناہ کا کام کروایابلکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے ارادہ کو عمل میں لانے کےلیے آزادی دی ہے جس کے نتیجے میں لامحالٰہ وہ طریقے وجودمیں آنے تھے اوروجود میں آئے کہ جن کے نتائج بھی لازمی نکلنے تھے مطلب کہ اللہ تعالیٰ نے