کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 18
اسی رخ میں دیکھا جائے جس میں سوال دریافت کیا گیا ہے،یہ بھی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہےکہیں پر اگر جوابات میں تشنگی رہ گئی ہے تواس میں شاہ صاحب کی بے پناہ مصروفیات بھی ایک اہم سبب ہیں،ان کی زندگی بڑی مصروف ترین تھی،ان کو بہت سارے ضروری فرائض سرانجام دینے پڑتے تھے اورفتاوے کاہجوم بھی بڑھا ہواتھا،کثرت کارکے باوجودآپ کسی سائل کو خالی نہیں جانے دیتے تھے،بے پناہ مصروفیات کے باوجود آپ نے ضعف عمری میں بھی قلم وقرطاس سے کبھی رشتہ منقطع نہ کیا ،مطالعہ کتب آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا،کتب اورعلمی لٹریچرآپ کا عظیم اثاثہ تھا۔شاہ صاحب عموما ملاقاتیوں کے ہجوم میں گھرے سےرہتے تھے، ایک یہ بھی سبب تھا کہ جوابات میں مزید تفصیلی علمی مباحث اورحوالہ جات کی کہیں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔لہذا کبھی مختصر مگر جامع جواب دیاکرتے تھے،شاہ صاحب بے پناہ مصروفیات کے باعث بعض اوقات اپنے مدرسہ کے لائق اساتذہ کرام کو بھی فتاوے لکھنے کی تاکید کیا کرتے تھے،جس کے آخر میں آپ تصدیق کردیا کرتے تھےجس کے بعد فتاوی متعلقہ افرادکو ارسال کردیا کرتے تھے۔عموماًافسوس کہ اس مسودے کی کاپی رکھنے کا اہتمام بھی کم ہوتا تھا جس وجہ سے کافی علمی ذخیرہ ضائع ہوگیا۔جس کے نہ ملنے پر شدید افسوس ہے۔شاہ صاحب فتاوے دیتے وقت قرآن وسنت کی روشنی میں تمام ائمہ کے اقوال سے بھی استفادہ کرتے اورصحابہ رضی اللہ عنہم تابعین اورتبع تابعین رحہم اللہ کے آراء کے ذریعے فتوی دیتےوقت صحیح احادیث پر عموما زیادہ انحصار کرتے تھے چونکہ آپ اپنے وقت کے فن رجال کے امام بھی تھے۔ علامہ سید محب اللہ شاہ رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں سیکڑوں تصانیف علمی مضامین ومقالات بڑی تحقیق وتدقیق سے تحریرفرمائے۔رسائل کی صورت میں فتاوے کا بھی ایک بڑا علمی ذخیرہ لکھا جس سے جو مواد میں نے آپ سے سوال وجواب کی صورت میں مختلف اوقات میں حاصل کیا وہ آج قارئین کی نظر کرتا ہوں جن سے کئی مذہبی مسائل،تاریخی عقدے حل ہوتے ہیں ۔جن کے مطالعہ سے دل ودماغ میں علمی وسعت پیدا ہوتی ہے۔شاہ