کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 179
جہاں انسان کوکسی پرزےمیں نقص یاخرابی پیداہونےکااندازہ خرابی پیداہونےکےبعدہوتاہے،وہاں اللہ تعالیٰ کواس کاپہلےہی علم ہوتاہےکہ دنیاکی فلاں چیزمیں فلاں وقت یہ نقص یاخرابی پیداہوگی اوراس کےاسباب کابھی پہلےہی علم ہوتاہے۔اس خیروشرکےیہ اسباب ہوتےہیں،اس نکتہ کوخوب ذہن نشین کرلیں۔ ی:۔۔۔۔۔۔جب کوئی اسکیم بنائی جاتی ہےتواس کانقشہ اورخاکہ ذہن میں بٹھایاجاتاہے۔اس کےساتھ ساتھ اسکیم تیارکرنےوالوں کےذہن میں اس کےنتائج یااس کوعمل میں لانےسےجواردگردکےماحول میں اثرات مرتب ہوتےہیں وہاں یہ بھی ذہن میں موجودہوتےہیں جن کوبعدمیں کاغذپرمنتقل کیاجاتاہے،پھراس کوعمل میں لانےکےلیےتیاریاں کی جاتی ہیں اوراس کی شروعات ہوتی ہیں،لیکن انسان کاعلم محدودہوتاہےجس کی وجہ سےکبھی کبھی نتائج اس کےمنصوبےکےخلاف آتےہیں یااندازےسےکم ہوتےہیں یاان کےساتھ کئی دوسرےنتائج بھی پیداہوجاتےہیں،جواس کےذہن میں نہیں ہوتے۔بسااوقات وہ پوری اسکیم فیل ہوجاتی ہےلیکن اللہ تعالیٰ کےمقررمنصوبےمیں اس قسم کےنقص یاخرابی کاپیداہوناناممکن ہوتاہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کاعلم لامحدودہے۔ ان دس نکات کوذہن نشین کرنےکےبعداصل مسئلہ کی طرف آتےہیں،تقدیرکامعنی ہےاندازا۔اس کی وضاحت اس طرح ہےکہ اللہ تعالیٰ نےازل میں ارادہ کیاکہ اس عالم کوتخلیق کیاجائےاس کےمتعلق پروگرام اوراسکیم اس کےعلم میں موجودتھی جس کی تفصیل(گذشتہ نکات کی روشنی میں)اس طرح ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نےارادہ کیاکہ ایک ایسی دنیاوجودمیں لائی جائےجس کےوجودمیں آنےکےبعدہی اس کی مخلوق کومعرفت یاپہچان حاصل ہوگی اورمخلوق کوبھی پتہ چلےگاکہ اس کابھی کوئی ایک رب وحدہ لاشریک لہ ہے۔جس نےاپنی پہچان اورصفات حمیدہ کےظہورکےلیےاس دنیاکوپیداکرناچاہا،جس میں ایسی مخلوق پیداکرناکاارادہ کیاجس کےپیداہونےکےبعداللہ کی صفات کابوجہ اتم ظہورہوااوروہ مخلوق ایسی ہوحاجت عقل واختیارہومجبورمحض نہ ہواپنےارادےسےخیروشرکی راہ لےسکےپھر