کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 177
کوراضی رکھےورنہ اگرکوئی تارک دنیاہوکر بیٹھ جائے تواس میں کیا کمال ہے ،قرآن نے توانہی لوگوں کو سراہا ہے جو دنیا میں رہ کراپنے رب کو راضی رکھتے ہیں۔فرمایا:
﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ﴾ (النور:٣٧)
’’وه لوگ جواپنے کاروبارمیں معروف ومشغول بھی ہیں تاہم اس حالت میں بھی اللہ کویادکرتے رہتے ہیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی ہونے سے منع فرمایاہےکیونکہ خصی آدمی میں برائی کی قوت ہی نہیں ہوتی ، لہٰذا وہ اگربرائی نہیں کرتاتواس میں کیا کمال ہےاوراس کی کس طرح آزمائش ہوگی،کمال تواس میں ہے کہ انسان میں طاقت مردانی بے پناہ ہواوروہ اس کوناجائز جگہ پر استعمال نہ کرے محض اللہ کے ڈراورخوف کی وجہ سے ۔اس کو راضی رکھنے کے لیے ایسے کام کے قریب بھی نہیں جاتا۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اس معاملے میں بڑی تعریف کی ہے اورفرمایا:’’وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔‘‘(یوسف)
اسی طرح انسانی خوبیوں اورخامیوں کے موروثی اثرات بھی ہوتے ہیں۔والدین کی جسمانی یاروحانی مادی یا معنوی خوبیاں اورخامیاں اولاد کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہیں۔حتیٰ کہ بعض بیماریاں بھی موروثی ہوتی ہیں،آج کل ’’نفسیات‘‘(Psy Chology)کے ماہرین کی بھی یہ تحقیق ہےکہ اولادکی طرف آباواجدادکی صفتیں یاخصائل منتقل ہوتےہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ:’’حضرت آدم علیہ السلام سےخطاہوئی تواس کےاولادمیں یہ بات چلی،ان سےبھول ہوئی تواس کی اولادمیں یہ بات چلی آرہی ہے۔وغیرہ وغیرہ‘‘گویاضروری اورحتمی نہیں ہےکہ خاندان یاوالدین کی خصوصیتیں بالضروراولادکی طرف منتقل ہوتی ہوں، بلکہ نہیں بھی ہوتی۔مقصدکہ یہ بھی ایک سبب ہوتاہےجوگاہےبگاہےبعدکی اولادکےسدھارےیابگاڑکاسبب بنتاہے۔میراایک چشم دیدواقعہ ایک مزدورکی دوبیویاں تھیں،انسان کتنی بھی کوشش کرےلیکن دل کامیلان ایک کی طرف ہوتاہےبرابری اس معاملےمیں ناممکن ہوتی ہے۔اس آدمی کی دونوں بیویوں سےاولادتھی۔ایک بیوی سےزیادہ محبت اوردوسری سےتھوڑی کم محبت تھی،