کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 176
ناپید ہوتا توپھر کسی انسان کو کسی بھی صفت کی تعریف وثنا کا موقع ہی نہ ملتا۔دنیا ایک خشک اوربہجت ورونق سے عاری ایک اکتانے والی یکسانیت کا بے ڈھنگہ نمونہ بن جاتی ۔ہم انسانوں کی یہ حالت ہے کہ کسی بھی معاملے یا کام یا امیرمیں یکسانیت کو ہرگز پسند وبرداشت نہیں کرت ۔اسی لیے مالک الملک نے ہماری زندگی کو نیک دلچسپ نمونہ عطاکیا ہے،جس کے کسی بھی شعبے میں یکسانیت نہیں ہے۔اللہ اکبر ! اوراسی اختلاف کی وجہ سے لوگوں کے اعمال،عقائد،تصورات لائحہ عمل طریقہ کارحتیٰ کہ نیک وبدمیں بھی بڑا فرق اورتفاوت وجود میں آگیاجوابتلاء کے لیے اختیاردےکراس عالم رنگ وبومیں انسان کو بھیجنے کا لازمی نتیجہ تھا۔
ح:۔۔۔۔۔۔جب انسان کے تمام افرادکی فطرت صالح وسالم تھی توپھر وہ خیروشرمیں کیسےتقسیم ہوا؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس دہری تقسیم کے بھی کئی اسباب ہیں،مثلاً ماحول سوسائٹی خاندانی رسوم وروایات،بری صحبت اورساتھ۔جس میں زیادہ لیاقت تھی وہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ مقبول ہوایا کسی دنیاوی اعلیٰ مرتبے پر فائز مگر دوسرےمیں وہ لیاقت نہ تھی یا کم تھی اس کوپہلے کے مرتبہ ومقام پر حسد ہوااورنتیجتاً اس سے کوئی نہایت ہی غلط قدم اٹھااوراپنے محسودکی جان کےدرپے ہوایا اسےنقصان پہنچانے کی سوچنے لگا۔ ایک کوجسمانی طاقت بے پناہ ملی ہوئی تھی،جس نے اسے اختیارکے مطابق اس کو غلط استعمال کیااوراپنے کتنے ہی ہم نوعوں کی تباہی کا باعث بنا،کسی کوکوئی جسمانی ضرورت تمام زیادہ لاحق ہوئی مثلاً بھوک اوربدحالی وغیرہ یا جنسی ضرورت پوری کرنے کے لیے فوری کوئی ذریعہ نہ تھا،اس نے بجائے صبر کرنے کے بھوک مٹانے کی خاطر چوری کی یا ناجائز جگہ پر اپنی جنسی ضرورت کوپوراکرنا چاہااسی طرح کئی دوسری امثال پیش کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح ان دوبلاکوں میں تقسیم ہونا ناگزیرتھا،لیکن یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے آزمائش تھی کہ بھوک اوربدحالی میں صبرکرتا ہے یا دوسراراستہ اختیارکرتا ہے۔بےحد ضرورت میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے یانہیں جس کی تفصیل اوپر گزرچکی۔حقیقت میں انسان کا کمال بھی اس میں ہے کہ وہ اس دنیامیں رہے اس کے اسباب مال ومتاع،اہل وعیال تمام باتوں سے دلچسپی رکھے اورپھر بھی اللہ