کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 174
ذ:۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت بالکل صحیح وسالم اوردین اسلام کے مطابق بنائی ہے جس طرح قرآن میں ہے:
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا﴾(الروم: ٣۰)
’’پس آپ اپنے چہرے کو یا توجہ کودین پرقائم رکھیں اس حال میں کہ توباطل سے حق کی طرف جانے والاہوتا۔‘‘
یعنی وہ دین اسلام جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت بنائی ہے۔صحیح حدیث بخاری وغیرہ میں ہے کہ:
((كل مولود يولد علي الفطرة)) (الحديث)
’’ہربچہ اپنی صحیح فطرت پر ہی پیداہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ التین میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾ (التین:٤)
’’بے شک ہم نے انسان کو ایک بہترین بناوٹ میں پیداکیا ہے۔‘‘
بہرحال کسی بھی ماحول یا خاندان میں بچہ کا تولدہومگروہ اپنی ماں کے پیٹ سے صحیح فطرت لے کر باہر آتا ہے،یعنی کسی کو مسلمان یا کافر بناکرپیدا نہیں کرتا ،لیکن اس عالم میں آنے کے بعد ماحول، سوسائٹی، خاندان اس کے رسم ورواج اوراس کے علاوہ دوسرے کئی اسباب اس کی فطرت کو بگاڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔اس کے باوجود بھی ان کافوری تدارک ہواتوزائل ہوجاتے ہیں ورنہ آگے چل کروہ لاعلاج اسٹیج پرپہنچ جاتے ہیں۔(اعاذنااللّٰه منها)
بہرصورت انسانی فطرت توسب کی صحیح ہوتی ہے،اس میں کوئی فرق نہیں ،البتہ انسانی لیاقت صلاحیت ،استعداداورانسان میں رکھی ہوئی قوتوں میں کافی فرق ہوتا ہے،ایک انسان میں قوت برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے توکئی انسانوں میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے،کسی انسان میں کائی خاص لیاقت ہوتی ہے تودوسرااس سے محروم ہوتا ہے ،کوئی انجینئر ہے توکوئی