کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 173
انسان زمین توزمین مگراجرام علویہ کےتسخیرکےاحوال جاننےکےلیےکمربستہ ہوگیاہےجن میں کچھ تک توقدرےپہنچ بھی گیاہےاورکیاکیاعجیب وغریب چیزیں ایجادکردیں،یہی روزبروزکہاں سےکہاں تک پہنچ گیاہےکیایہ ساراکچھ علم کاکرشمہ نہیں ہے؟بہرحال اللہ تعالیٰ کےاتنےبڑےبےانتہاء کاظہوربھی انسان کی تخلیق سےہوا۔ مشہورمقولہ ہے’’ضرورت ایجادکی ماں ہے‘‘یعنی جب کوئی ضرورت پیش آتی ہےتواس کےحل کےلیےانسان کوئی نہ کوئی ایجادیاراستہ تلاش کرتاہےتاکہ اس کی وہ ضرورت وحاجت پوری ہوجائے، اب سوچناچاہیےکہ اگران ضرورتوں اورصفتوں والاانسان نہ ہوتاتواس دنیا کی کسی بھی چیز سے کوئی ایجادنہ ہوتی،اس کائنات کے ذرے ذرے میں بے شمارقوتیں اورفائدےمالک کائنات نے رکھے ہیں۔ان کاکبھی بھی ظہورنہ ہوتا،لیکن جب جب انسان کو ضرورتیں لاحق ہوتی گئیں۔ تب تب وہ اس کائنات کے کیمیاء مظاہراوراشیاء سے وہ خفیہ قوتیں اپنے تجربہ اورسائنس کے علم سے ظاہرکرکے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اوراسی ابتلااوربااختیارہونے کی صورت سے انسان میں باقاعدہ ترقی کرنے اورایک دوسرے سے سبقت لے جانے والاجذبہ پیدا ہوتا ہے،ورنہ مشینی صفت مخلوق کیسی بھی ہوتی اس سے ایسی ایجادات وجود میں نہ آتیں۔وہ تواپنی حرکت میں لانے والی تحریک پرایک خاص سمت یا ڈائریکشن پر چلتا رہتا،دوسری طرف توجہ کرنا یا ترقی کرنے کا شعورہی نہ ہوتا۔ لہٰذا ترقی یا گوناگونی اوررنگاررنگی طرزوبودوباتوں کا توخیال ہی نہیں آتاکیا یہ معمولی بات ہے؟کیا یہ بڑی حکمت نہیں ہےجوکہ ایک حکیم علیم ہستی کی طرف رہنمائی کررہی ہے؟اس پر خوب غورکرنا چاہیئے۔
و:۔۔۔۔۔۔انسان کواتنے اختیاراورارادےکوعمل میں لانے کی آزادی کی وجہ سے اس عالم میں لامحالٰہ نمونے ظاہرہونے تھے کوئی خیر کوتوکوئی شرکواختیار،کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ توکوئی اسفل السافلین کی طرف جانے کی سعی کرتا ۔کوئی بلند اخلاق کا مجسمہ ہوتا توکوئی بداخلاقی کی بدترین مثال ہوتا۔کیونکہ بدی کا اختیاراس سے سلب کیا جاتا توآزمائش کا بنیادی ختم ہوجاتا۔جس طرح تفصیلاً ذکرکرچکے ہیں۔