کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 172
ہ:۔۔۔۔۔۔یہ سوال پیداہوتاہےکہ آخرانسان کواتنااختیاردےکر اس امتحان حال میں کیوں لایاگیاہے؟یاان کےآزمائش کی کیاضرورت تھی؟ اس کےلیےیہ گذارش ہےکہ اول تویہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کاذاتی معاملہ ہےہم اس کےبارےمیں کیاقیاس آرائی کرسکتےہیں،تاہم ہمارےناقص علم اورفہم میں جوحقیقت آئی ہےوہ یہاں عرض کرتےہیں۔( و اللّٰہ اعلم )انسان کی اس طرح صورت گری کرکےاسےگوناگوں لیاقتوں سےمزین بناکرمختلف قوتوں سےمسلح بناکراورقدرےاختیاردےکراس عالم رنگ وبومیں آزمائش کےلیےآمدسےاللہ تعالیٰ کی کتنی صفات حمیدہ کاظہورہوااللہ تعالیٰ ٰ تواپنی ذات پاک میں غنی وحمیدہے،لیکن اگران صفات اورلیاقتوں والاانسان نہ ہوتاتواللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت عدل،رحم،فضل،کرم،حلم برداری،غفاریت والی صفت اورہرچیزکےخالق ہونےکی صفت(پہلےلکھ چکےہیں کہ یہ ساری کائنات انسان کےلیےہی پیداکی گئی ہے)بندوں سےمحبت کرنا،عفوودرگزرسےکام لیناکی صفات وغیرہ وغیرہ آخروہ کس طرح ظہورپذیرہوئیں۔ملائکہ(فرشتے)توپہلےپیداتھےمگرصرف ان کی پیدائش سےیاان کی موجودگی سےاوپرذکر کی گئی بےشمارصفتوں کاظہورنہ ہواکیونکہ ان فرشتوں کوکوئی اختیارنہیں ہے،لہٰذاوہ کون سی خطائیں کہ الٰہ سبحانہ و تعالیٰ ان کوصفت غفاریہ سےمعاف کرتے،ان میں ظلم کامادہ نہ تھااورنہ ہی اس کواختیارکرنےکی ان میں قوت تھی،پھراللہ تعالیٰ کی صفت عدالت کاکس طرح ظہورہوتا۔علیٰ ہذاالقیاس دوسری کئی صفات کوسمجھاجاسکتاہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اگراتنی ساری مخلوق مع انسان پیدانہ کرتےتوان کوکون پہچانتااگرچہ وہ خودتوہمیشہ ہی سےاپنی ذات کےاعتبارسےغنی،حمیداورمجیدتھا۔اسی طرح اس بااختیارانسان کواس عالم میں بھیجنےسےکیاوجودمیں آیاہے؟اللہ تعالیٰ نےانسانوں کےمتعلق فرشتوں کوفرمایا: ﴿أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة:٣) ’’یعنی انسان میں کیاکیاخوبیاں ہیں وہ کیاکیاکرسکتاہے،اس کوکتنابڑاعلم دیاگیاہے،اس میں کتنی سمجھ رکھی ہے۔اس کاعلم آپ کونہیں ہے،یہ اللہ تعالیٰ کےفرمان کاہی نتیجہ ہےکہ