کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 171
اللہ کی پسند اورناپسند کی معلومات ہو۔اسی حقیقت کی طرف قرآن کریم ان دوآیات کریمہ میں ارشادہے: ﴿وَهَدَيْنَـٰهُ ٱلنَّجْدَيْنِ﴾ (البلد: ١۰) ’’انسان کودونوں راستے خیروشرکے دکھائے۔‘‘ ﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَ‌هَا وَتَقْوَىٰهَا﴾ (الشمس:٨) ’’اورنفس انسانی کی طرف برائی اورپرہیز گاری کا بھی الٰہام کیا۔‘‘ جب انسان کےسامنےدونوں راستےہیں اب چوائس اورانتخاب کاسوال پیداہوا، یعنی دونوں میں سےکسی راستےکاانتخاب کرے،اس لیےآزمائش خاطریہ بھی ضروری تھاکہ انسان کواتنااختیارملےکہ وہ دونوں میں سےکسی ایک کواپنی مرضی اورارادےکےمطابق اختیارکرے۔ اسی لیےاس کواپنےکسی بھی ارادےکوعمل میں لانےکی قوت اوراختیاردیاگیاہے،آزمائش کےلیےضروری ہےکہ جس کوآزمایاجائےاس کودونوں اطراف میں سےکسی ایک کواختیارکرنےکی قوت ہوورنہ اگراس کوغلط یابرائی کاراستہ اختیارکرنےکاایک قسم کااختیارہی نہ ہوتاتوپھرانسان جمادات کی طرح ہوایامشینی صفت انسان ہواجس کونہ اپناشعورہےنہ کوئی ارادہ یااختیارچلانےوالےنےاس کوچلادیاتوچل رہی ہےجب بندکیاتوبندہوگئی،نہ اپنےارادےسےحرکت میں آئی اورنہ ہی اپنےارادےسےحرکت کوبندکیاایسےانسان کےلیےجزاوسزاکاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا،مثلاًکوئی انسان مجنون یادیوانہ ہےتومرفوع القلم ہے،کسی کام کی وجہ سےشرعاًاسےسزانہیں،کیونکہ اس میں عقل نہیں ہے، لہٰذااس کےکام بےاختیارہیں،عقل وارادہ ماتحت نہیں ہیں۔بہرحال انسان کوصاحب الارادہ والاختیاربنایاگیاہے،تاکہ وہ اپنےاختیارسےکسی بھی راستےکاانتخاب کرلےاسی کےمطابق چلےاورپھراس کانتیجہ دیکھے۔ یہی ارادہ اوراختیارکسی حدتک آزادی کےساتھ ساراامتحان اوراس کی جزاوسزاکی بنیادہے۔