کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 164
ان پر ایمان نہ رکھنے والے اورانکارکرنے والے اوراسی طرح فرائض کی فرضیت کا انکارکرنے والے یا حرام کو حلال جاننے والے یا حرام نہ سمجھنے والے کو مشرک اس لیے کہا جاتاہے کہ رسل وپیغمبروں اورکتابوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں انہیں بھیجتارہاہوں اوریہ سلسلہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن پر ختم کردیا۔
فرشتوں کے متعلق فرمایا:یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی برگزیدہ مخلوق ہیں جہ ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں اورنافرمانی نہیں کرتے ،اسی طرح تقدیر کے متعلق بے شمارآیات واحادیث وارد ہوئی ہیں لیکن یہاں ایک ہی آیت پر اکتفاکیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍ﴾ (القمر:٤٩)
’’بے شک ہم نے ہرچیز کو ایک مقرراندازے پر پیداکیا ہے۔‘‘
اورآخرت کے متعلق بھی پورے قرآن مجید میں جابجاوعظ ونصیحتیں موجود ہیں بعینہ اسی طرح نماز،روزہ وغیرہ کے متعلق قرآن کریم میں موجود ہے کہ یہ فرائض ہیں۔حرام اشیاءکی مکمل توضیح قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں موجودہے اب اگرکوئی شخص ان کو ماننے سےانکارکرتا ہے تواس کا صاف مطلب ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کو (معاذاللہ ثم معاذاللہ)جھوٹا سمجھتاہےاورجھوٹ نقص،عیب وخامی ہے اوراللہ سبحانہ و تعالیٰ ہرعیب ونقص سےقطعاًپاک ہےاسماء الحسنی میں ایک اسم’’السلام‘‘ہےاورایک اسم مبارک’’القدوس‘‘بھی ہےجن کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرعیب ونقص سے باعتبارذات وصفات پاک ہے۔عیب اورنقص مخلوقات کاخاصہ ہے لہٰذا جوشخص اللہ تعالیٰ کو نعوذ باللہ جھوٹا سمجھتا ہے تو اس نے واضح طورپر اللہ تعالیٰ کومخلوق کے ساتھ مشابہ قراردیا اوریہی توشرک ہے اس پر خوب غوروتدبرکریں۔ہاں جو شخص مذکورہ بالاصفات وغیرہ وغیرہ سب پر ایمان رکھتا ہے اورفرائض کی فرضیت بھی تسلیم کرتا ہے اورتمام ممنوعات وناجائز کاموں کو حرام وناجائز جانتا ہے لیکن بتقاضائے بشریت فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی وسستی کاارتکاب کرتا ہے یا محرمات میں سے کسی حرام کام ارتکاب کربیٹھتا