کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 16
نظام اسلام کےخلاف ملحدین اورمغرب زدہ اذہان کی باتیں سن سن کربددل ہوکرآپ کی بزم میں شفایاب ہونےکی غرض سےآیاکرتےتھے،کچھ ایسےفکرکےمالک بھی حاضربزم ہواکرتےتھے۔جوحصول دعاءاورناصحانہ حکمات سننےکی متمنی ہواکرتےتھے
آب رواں کی لہرہےاورہم ہیں دوستو
شاہ صاحب کےہاں ایسےمسائل بھی آیاکرتےتھےجوکفروالحادکےمارےماحول میں بیمارہوکرسنی سنائی ساری اسلام خلاف باتیں تک کہہ کردل کابوجھ ہلکاکرتےتھے،جووکسی اورصاحب علم سےکرنےکی ہمت کوئی نہیں کرسکتاتھا،لیکن یہ ساری باتیں سننےکےبعدبھی شاہ صاحب سائل کےذہن میں فکراسلامی کاایسےسایہ دارشجرکی تخم ریزی کرنےکی کوشش کرتےتھےکہ سائل ساری زندگی اسلام کاہی ہوکررہ جائے،بلاشبہ موجودہ دورایساپاآشوب دورہےجس میں مخالفین اسلام ایساجواب طلب کرتےہیں جوحدت عقل کونہ سہی فہم عامہ کوبھی اطمینان خاطردلاسکےویسےبھی اللہ تعالیٰ نےطائفہ منصورہ مسلک سلف صالحین’’اہل حدیث‘‘کویہ قبول عام شرف اسی وجہ سےعطاہواہےکہ یہاں کتاب وسنت کی بالادستی اورشاہ صاحب جیسےوسعت ظرف ووسعت نظرکےمالک حضرات کی کاوشیں خصوصی کام آتی ہیں، پھریہ لوگ بھی اتنےبڑےتھےکہ جب حق کی بات سامنےآتی تووہ ایسےسابقہ دئیےہوئےفتاوےسےبھی علی الاعلان رجوع کرنےکاحوصلہ بھی رکھتےتھے،جس کی متعددمثالیں شاہ صاحب کے فتاوے میں جگہ جگہ ملتی ہیں۔مفتی کی دوررس نگاہ صرف اعلائے حق پر مرکوزہواکرتی تھی،شاہ صاحب کا یہ قاعدہ کلیہ تھاکہ ایک مسلمان اپنی زندگی اورمعاشرت میں تمام آداب ورسوم،حقوق فرائض، اخلاق وسیرت،عبادات ومعاملات کو کتاب وسنت کے آئینہ میں ہی درست کرے۔ان کی بزم میں جہاں کتاب وسنت کی بالادستی نظر آتی تھی وہاں فکرتازہ کے نظارےبھی موجزن ہواکرتے تھے،ان کے ہاں کبھی بھی اندھی تقلید،بزرگوں کے ارشادات وفرامین کووحی الہی کے برابرتصورکرنے کے محیرالعقول کشف وکرامات کا سرے سے تصورموجودنہ تھا
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آسماں کے