کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 151
بڑی مقدارمیں ملے جاندار چیزیں تباہ اورہلاک ہوجائیں گی جبکہ ان مادوں میں کوئی شعورنہیں ہے تولامحال ماننا پڑے گا کہ ایک قادرمطلق ہستی جو اپنی بے پناہ قدرت کے ساتھ ایک وقت میں مخلوقات کی ضروریات کے لیے ان کی تخلیق سے پہلے ان گیسوں کو اتنی اندازمیں آپس میں ملایا جس سے بڑی مقدرمیں اوپر سے پانی گرا،لیکن آج وہ قادرقدیرہستی ان کواتنی بڑی مقدار میں اس قدرملنے سے روک رہی ہے ،وہ ہستی ہے جس کو ہم اللہ سبحانہ وتعالی کہتے ہیں۔
بہرحال اس حقیقت باہرہ سے انکارکرنے کی جرات سوائے ضدی ملحد اورعقل کےدشمن دہریہ کے اورکوئی نہیں کرسکتا۔
مطلب کہ اس سوال کا ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے ۔یہاں البتہ وہ جان چھڑانے کی خاطر یہ کہیں گے بلکہ کہتے بھی ہیں کہ ان باتوں میں ہم کیوں پڑیں یہ کسی طرح بھی ہے، لیکن ہمیں پتا نہیں ہےتوپھر ہم ان کے پیچھے کیوں پڑیں! اس سے خاموش رہنا بہتر ہے۔
حالانکہ ہر عقل سلیم رکھنے والاانسان ان کے اس جواب سے ان کی نمایاں شکست اورمغلوبیت کا اندازہ لگاسکتا ہے ۔
﴿إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ﴾ (الانعام:٢١)
اس آیت کا خلاصہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تفسیر’’تفہیم القرآن‘‘کی سورہ مومنون کی مذکورہ آیت کریمہ کی تشریح سے ماخوذہے۔
دلیل نمبر٢:محترم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب اپنی کتاب’’انسان کائنات اورقانون فطرت‘‘کے صفحہ نمبر١۰،١١پر’’انسانی جسم‘‘کے عنوان سے جدید علوم(تشریح انسانی متعلق)حاصل شدہ علوم ومعارف ،سائنسی تجربات اورمشاہدات کی بنیاد پر اس طرح رقمطرازہیں۔’’مرد کے پیدائشی مادے سے یعنی نطفے کے ایک مکعب سینٹی میٹر میں اڑھائی کروڑمنی کےجرثومے ہوتے ہیں اورعام حالات میں ایک دفعہ میں کتنے ہی مکعب سینٹی میٹر جتنا مادہ ہوتا ہے ۔جس میں ماہرین کے اندازے کے مطابق(٥۰)کروڑ جرثومے(منی کے زندہ جراثیم)