کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 150
گیسوں کے امتزاج یا ملنے کی وجہ سے بناہے اوریہ حقیقت بھی سائنسدانوں کے ہاں ہے کہ یہ سمندروغیرہ بہت عرصہ پہلے اس طرح وجود میں آئے کہ ماضی میں ہائیڈروجن اورآکسیجن دونوں گیسیں ایک وقت میں زیادہ مقدارمیں آپس میں ملیں جس کے نتیجے میں اوپرفضاسےبے حساب پانی گراجو زمین کے نشیبی حصوں میں قرارپکڑگیا جس کی وجہ سے سمندر وغیرہ وجودمیں آگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دہریہ یا کیمونسٹ کے کہنے کے مطابق اس کا ئنات کوچلانے والایاپیداکرنے والاجس کو اللہ کہا جاتا ہے وہ ہے ہی نہیں توپھر وہ بتائیں کہ سائنسی انکشافات اورتحقیقات موجب جبکہ اب بھی فضا میں وہ گیسیں، ہائیڈروجن اورآکسیجن موجودہیں توپھر وہ آپس میں اس انداز میں کیوں نہیں ملتی جس انداز میں ماضی بعید میں آپس میں ملیں تھیں کہ جن کی امتزاج کی وجہ سے بڑی مقدارمیں اوپر سے پانی گراتھا کہ جس کی وجہ سے سمندر،نہریں یا زیرزمین پانی قرارپکڑگیا۔ ظاہر ہے کہ آج بھی اگر وہ دونوں گیسیں آپس میں اس انداز سے ملیں تواوپر سے بے انتہا پانی گرنا شروع ہوجائے کہ جس سے انسان بلکہ پوری جاندارچیزوں کا کیا حشر ہوتا ،یہ ہرعقلمند جان سکتا ہے مگر آج وہ دونوں گیسیں اتنی بڑی مقدار میں آپس میں نہیں ملتیں ،آخر کونسی ہستی ہے جس نے مخلوقات کی ضروریات کےمطابق دونوں گیسوں کو اتنے بڑے انداز میں ملاکراتنا بڑا پانی کا ذخیرہ مہیا کیا ،لیکن آج وہ ہستی ان دونوں گیسوں کو آپس میں اتنی بڑی مقدارمیں ملنے نہیں دیتی ۔ آخر وہ کون سی ہستی ہے؟حالانکہ وہ دونوں گیسیں آج بھی فضا میں موجود ہیں مگر کون ہے جو ان کو اتنی بڑی مقدارمیں ملنے سے روک رہا ہے؟ اسی طرح یہ بھی سوال ہے کہ آخر کون ہے جو پانی کے بخارات سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ کرتا ہے فضائی آکسیجن کو ہائیڈروجن کے ساتھ ملنے سے روک رہا ہے۔مگر یقین رکھیے ان ملحد دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔کیونکہ وہ دونوں گیسیں توایک اندھا ،بہرااورلاشعورمادہ ہے ان میں یہ سمجھ کہاں سے آئی کہ آج اگرہم اتنی