کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 15
ہوا۔جومیرےلیےرہتی دنیاتک سامان اعزازونجات اخروی کاایک ظاہری سبب تصورکرتاہوں ازمابجزحکایت مھروفا میرس ماقصہ سکندر و دارانہ خواندہ ایم میں حضرت شاہ صاحب مرحوم کی علمی بزم سےجب بھی رخصت ہوتاتوآپ مجھےاپنائیت میں سینےسےلگانےپرجوخلوص کی حرارت محسوس ہوتی اس کااحساس آج بھی اپنےاندرپاتاہوں۔ان کی تربیت کاتوکچھ اندازہی نرالاتھا،انھوں نےاپنےقرب وجوارمیں بھی کچھ ماحول ہی ایسابنادیاتھاکہ اللہ اوراس کانام لینےوالوں کےلیےدنیامیں بھی محبت واکرام جاگزیں ہوتاگیا،ان کی صحبت سےتواپنےملنےوالوں کوبھی مطالعہ کتب کااسیراورانسان دوست بنادیا تیری قربت کےلمحےپھول جیسے مگرپھولوں کی عمریں مختصرہیں اللہ والوں سےاٹھنابیٹھناان کےہاں کچھ ایسےوفورسےتھاکہ آج تک حیرت ہوتی ہے،ہم جیسےکتنوں کی قلم وقرطاس سےمحبت اپنائیت اورزندگی کاحصہ بن گئی،شاہ کےہاں صرف میں اکیلاہی عقیدت کیش نہ تھابلکہ مجھ سےکئی گنابڑےعلماءکرام اورمشائخ عظام بھی سرمایہ دعاءوتوجہ،گریہ نیم شبی حاصل کرنےکی غرض سےحاضرہواکرتےتھےاوران کی ہربات میں متانت،سنجیدگی اوروقارنظرآتاتھا۔ شاہ صاحب کی علمی محفل میں سائل دل کھول کربےخوف خطراپنامدعاپیش کرسکتاتھا،جس کےجواب میں اسےعزت نفس کےساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں جورہنمائی حاصل ہوتی تھی،دل کی گہرائیوں سےدعانکلتی ہےکہ اس پاک طینت بندہ پراللہ تعالیٰ اپنی بےپایاں انعام واکرام نازل فرمائے۔جس کی نظرکرامت نےمجھ سےکئی بےزبانوں کوبولنےکاسلیقہ سکھایآپ وقت کی نبض کوصحیح استعمال کرنےکےفن سےبھی آگاہ تھے۔ شاہ صاحب کےپاس اکثریت ایسےلوگوں کی بھی نظرآتی تھی جودین فطرت اورآفاقی